تمباکو جیسی غیر ضروری مصنوعات پر ٹیکس نہ بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے، خلیل احمد ڈوگر

منگل 7 جون 2022 20:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 جون2022ء) سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے پروگرام مینجر خلیل احمد ڈوگر نے کہا ہے کہ تمباکو جیسی غیر ضروری اور نقصان دہ مصنوعات پر ٹیکس نہ بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے جو ہر سال 170,000 اموات کا سبب بنتی ہیں۔ تمباکو کے استعمال سے ملک پر سالانہ 615 ارب کا معاشی بوجھ پڑتا ہے جبکہ تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی 120 ارب ہے۔

پاکستان جیسی کمزور معیشت قیمتی انسانی اور مالیاتی وسائل کے اتنے زیادہ نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتی۔تفصیلات کے مطابق سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) نے مقامی ہوٹل میں تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کی ضرورت پر ایک ڈائیلاگ سیشن کا انعقاد کیا۔

(جاری ہے)

"تمباکو ٹیکس: بھاری آمدنی کا بڑا ذریعہ" کے عنوان سے یہ سیشن ایک ایسے وقت میں منعقد کیا گیا جب پاکستان میں پیٹرولیم، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور حکومت اشیائ ضرورت کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو قابو میں رکھنے سے قاصر ثابت ہو رہی ہے۔

سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کمپین فار ٹوبیکو فری کڈزکے کنٹری ہیڈ ملک عمران کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان نے بارہا کہا ہے کہ حکومت پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے غیر مقبول فیصلے کرنے سے دریغ نہیں کرے گی۔ ریاست کے خزانے کو بھرنے کے لیے حکومت نے پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے اور درآمدات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن آمدنی کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک کو ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا۔

ملک عمران نے تمباکو پر ٹیکس لگانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پچھلے 4 سالوں سے تمباکو پر ٹیکسز میں اضافہ جمود کا شکار ہے۔ تمباکو کے استعمال سے سالانہ 615 ارب کا معاشی بوجھ پڑتا ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے جبکہ تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی 120 ارب ہے۔ یہ صورتحال فوری طور پر ٹیکس میں اضافے کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ پاکستان میں تمباکو کی مصنوعات دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے کم نرخوں پر فروخت ہو رہی ہیں۔

اس موقع پر سپارک کے پروگرام مینجر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ تمباکو جسی غیر ضروری اور خطرناک مصنوعات پر ٹیکس نہ بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے جو کہ ہر سال 170,000 اموات کا سبب بنتی ہیں۔ پاکستانی سگریٹ نوش اپنی ماہانہ آمدنی کا اوسطاً 10 فیصد سگریٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ سستی اور آسان استطاعت کی وجہ سے ملک میں روزانہ تقریباً 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان جیسی کمزور معیشت قیمتی انسانی اور مالیاتی وسائل کے اتنے زیادہ نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتی لہٰذا تمباکو کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ صحت عامہ کو محفوظ بنانے اور آمدنی پیدا کرنے کے لیے سب سے مؤثر حکمت عملی ہے۔ سیشن سے اپنے خطاب میں کرومیٹک ٹرسٹ کے سی ای او شارق محمود خان نے کہا کہ حکومت کے مطابق قیمتوں میں اضافے کے تمام فیصلے پاکستان کے بین الاقوامی وعدوں کی روشنی میں کیے گئے ہیں۔

پاکستان تمباکو کنٹرول پر ڈبلیو ایچ او کے فریم ورک کنونشن کا دستخط کنندہ ہے جس نے پاکستان کو مہنگائی کے مطابق تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے کی بارہا سفارش کی ہے۔ حکومت کو اس سفارش پر عمل درآمد کرنے کی فوری ضرورت ہے جس سے نہ صرف بہت زیادہ مطلوبہ آمدنی حاصل ہوگی بلکہ تمباکو کے استعمال میں بھی کمی آئے گی