عورت مارچ پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 8 مارچ 2023 14:40

عورت مارچ پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2023ء) کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں اس مارچ کے کچھ نعرے پسند نہیں آتے۔ عورت مارچ میں بلند ہونے والے اس نعرے پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی رہی ہے، ''میرا جسم میری مرضی‘‘۔ ناقدین اس نعرے کو معاشرے کی مذہبی اور خاندانی اقدار کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔

مذہبی طبقے کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے ہر مرد اور عورت کو آزاد پیدا کیا ہے۔

اس پر ان کی مرضی ہونی چاہیے۔ ان کے بقول عورت کو اپنے پہننے اوڑھنے، رائے کے اظہار، پسند و ناپسند کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس مرضی کی کچھ حدود بھی ہیں۔

دوسری طرف خواتین کا کہنا ہے کہ لوگ "میرا جسم، میری مرضی" کے نعرے کی تشریح ہی غلط کرتے ہیں۔ یہ نعرہ امریکہ میں انیسویں صدی میں تولیدی حقوق کی تحریک میں ابھرا تھا، جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ اگر میرا جسم ہے تو اس پر مرضی بھی میری ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

کوئی اسے میری مرضی کے بغیر ہاتھ نہ لگائے، کوئی ہمارا ریپ نہ کرے، کوئی ہمیں ہر سال ہماری مرضی کے بغیر بچے پیدا کرنے کو نہ کہے، شریک حیات کے ساتھ ازدواجی تعلق کے لیے بھی معیار رضامندی ہو نہ کہ زبردستی اور مجبوری۔

"میرا جسم میری مرضی" کو مخصوص ذہن نے بے حیائی اور فحاشی کے معانی پہنا دیے ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے اگر وہ تشدد کے خلاف بات کریں، یا ازدواجی معاملات میں عورت کی رضامندی کی بات کریں یا اگر وہ یہ بات کریں کہ عورت کی مرضی ہو کہ بچہ کب پیدا کرنا ہے؟ یا جنسی ہراسانی کی بات کریں، تو ان میں سے کون سی بات مذہب کے خلاف ہے؟ خواتین کا کہنا ہے کہ میرے جسم پر میری مرضی نہیں ہو گی تو کیا میرا جسم ہو گا اور آپ کی مرضی ہو گی؟

یاد رہے کہ پاکستان میں مذہبی، قبائلی، سیاسی و سماجی روایات نے جہاں عورتوں کو پسماندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، وہیں پر ریاست اور حکم رانوں نے بھی اس طرز خیال کو استعمال کرتے ہوئے اس سوچ کو تقویت دی ہے۔

عوام کے ساتھ، ساتھ انتظامیہ کی جانب سے بھی اس مارچ کو آخری دن تک اجازت نامے جاری کرنے کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ گزشتہ سال بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سامنے آئی، جب عورت مارچ رکوانے کے لیے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے بھی وزیرِ اعظم پاکستان کو یہ خط لکھا گیا کہ اس مارچ کی اجازت نہ دی جائے کیوں کہ اس مارچ میں معاشرتی اقدار، حیا و پاک دامنی، حجاب اور مذہب کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

اس کے نتیجے میں لاہور اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے مخصوص سڑکوں پر عورت مارچ کی اجازت نہ دی تو منتظمین کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا، جس کے بعد انہیں سکیورٹی فراہم کرنے اور مارچ کرنے کی اجازت دی گئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم طبقات نے عملی جدوجہد سے ہی اپنے حقوق حاصل کیے ہیں۔ ان طبقات کے حقوق کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یکم مئی کو شکاگو میں مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے اوقات کار کو تسلیم کروایا اور دنیا بھر میں مزدوروں کو ان کے حقوق حاصل ہوئے، جن کا اس وقت تک کسی کو ان کے عقائد کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔

یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں بہت سے مظالم سہنا پڑتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا۔ بارہا ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں، جن سے خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر دل دہل جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، ریپ، کارو کاری یا خواتین پر تشدد کے واقعات عموماً پیش آتے رہتے ہیں۔

جن واقعات نے پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کی ہے، ان میں جولائی 2021ء میں اسلام آباد میں نور مقدم کا قتل، ستمبر 2020ء کا لاہور سیالکوٹ موٹر وے ریپ کیس، جنوری 2018ء میں کم سن زینب انصاری کا جنسی تشدد کے بعد قتل اور 2016ء میں ماڈل قندیل بلوچ کا غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں۔

اس کے علاوہ حکام اور غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق بیشتر واقعات ایسے ہیں جو کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق پاکستان میں ہر برس ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو 'غیرت' کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، جب کہ 32 فیصد خواتین کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے علاقوں میں خواتین کو ان کی خاندانی جائیداد میں حق نہیں دیا جاتا۔

لہذا ان سب پر بات کرنے کی ضرورت ہے اس مقصد کے لیے عورت مارچ جیسی سرگرمیاں ہی موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین اپنی سوچ ایسی مارچ کے ذریعے ہی لوگوں تک پہنچا سکتی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔