Live Updates

سیاسی عدم و استحکام کے باوجود خواتین اراکین کا پارلیمانی کردار قابل ستائش رہا، فافن

جمعرات 9 مارچ 2023 19:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 مارچ2023ء) قومی اسمبلی اور سینٹ کی خواتین نے مارچ 2022ء تا 2023ء کے دوران قانون سازی، عوامی نمائندگی اور حکومتی نگرانی کے فرائض بھرپور طریقے سے ادا کئے۔ خواتین ارکان کی جانب سے پیش کردہ ایجنڈا کل پارلیمانی ایجنڈے کے ایک تہائی (35 فیصد) سے زائد رہا۔ قومی اسمبلی کے کل ایجنڈے کا 36 فیصد جبکہ سینٹ کے کل ایجنڈے کا 30 فیصد خواتین ارکان کی جانب سے پیش کیا گیا۔

واضح رہے کہ خواتین ارکان کی تعداد پارلیمان کی تعداد کا محض 20 فیصد ہے۔ جمعرات کو فافن سے جاری پریس ریلیز کے مطابق گذشتہ برس اپریل میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کی منظوری کے بعد سے جاری سیاسی عدم استحکام ا ور احتجاجوں کے سلسلہ کے باوجود اس برس بھی پارلیمان میں خواتین کی حاضری کا تناسب مردوں سے زیادہ رہا۔

(جاری ہے)

اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے 20 ارکان کے علاوہ دیگر ارکان قومی اسمبلی بشمول 27 خواتین قرارداد عدم اعتماد کی منظوری کے بعد اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کے اعلان کے بعد سال بھر ایوان کی کارروائی میں شریک نہیں ہوئیں۔ اوسطاً ہر خاتون رکن نے قومی اسمبلی کی 57 نشستوں (66 فیصد) میں شرکت کی جبکہ ہر مرد رکن 46 (53 فیصد) نشستوں میں شریک ہوا۔ اسی طرح اوسطاً ہر خاتون سینیٹر نے سینیٹ کی 68 (39 فیصد) نشستوں میں شرکت کی جبکہ ہر مرد سینیٹر 56 (32 فیصد) نشستوں میں شریک ہوا۔

خواتین اراکین کی پارلیمان میں بھرپور شرکت کے باوجود ان کی جانب سے پیش کردہ ایجنڈا عدم توجہی کا شکار رہا۔ اگرچہ نجی (ارکان )پرائیویٹ ممبر) کا تمام ایجنڈا ہی نظراندا ز کیا جاتا رہا تاہم مرد ارکان کے ایجنڈے کے مقابلے میں خواتین ا راکین کا ایجنڈ نسبتاً زیادہ نظر انداز ہوا۔ خواتین کی جانب سے پیش کردہ توجہ دلائو نوٹسز میں سے تقریباً نصف قانونی مسودات کا دو تہائی سے زائد اور پرائیویٹ ممبر قراردادیں، مفاد عامہ پر بحث کے لئے تحریکیں اور اسمبلی رولز میں ترامیم کی تجاویز یا تو ختم ہو گئیں یا آخری سیشن تک زیر التوا رہیں۔

وقفہ سوالات اسمبلی کی نشستوں کا واحد حصہ رہے جن میں خواتین اراکین کی مردوں کے مقابلے میں زیادہ شنوائی ہوئی۔ قومی اسمبلی کے برعکس سینیٹ میں خواتین ممبران کی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پذیرائی ہو ئی ۔ ایجنڈے کا صنفی طور پر الگ الگ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ مرد ا ور خواتین دونوں سینیٹرز کو ایوان کی طرف سے اسی طرز پر جواب دیا گیا تاہم مفاد عامہ کے مباحث کیلئے خواتین سینیٹرز کی (تحریکیں )بشمول رول 218 کے تحت تحریک التوا ا ور تحریک التوا کو مرد سینیٹرز کی تحریکوں کے مقابلے میں کم پارلیمانی توجہ حاصل ہوئی۔

قومی اسمبلی و سینیٹ کی فہرست کارروائی (آرڈر آف ڈے)کے مطابق ہر خاتون رکن قومی اسمبلی نے اوسطاً 18 ایجنڈا آئٹم جبکہ ہر مرد رکن اسمبلی نے 9 ایجنڈا آئٹم پیش کئے۔ اسی طرح ہر خاتون سینیٹر نے 12 ایجنڈا آئٹمز جبکہ مرد سینیٹر نے 9 ایجنڈا آئٹم پیش کئے۔ ا رکان اسمبلی ایجنڈا آئٹم پیش کرکے یا ایوان میں ہونے والی بحثوں میں حصہ لے کر ایوان کی کارروائی میں شریک ہوتے ہیں۔

اس اعتبار سے گذشتہ ایک برس میں تمام خواتین سینیٹرزنے ایوا نِ بالا کی کارروائی میں حصہ لیا تاہم اس دورا ن کل 8 خواتین ارکان قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی میں کسی طرح شرکت نہیں کی۔ موضوعاتی اعتبار سے خواتین ارکان نے عوامی اہمیت کے متعدد مسائل ایوان میں بحث کیلئے پیش کئے جن میں مہنگائی، بجلی کی فراہمی اور قیمتوں کا تعین، سرکاری محکموں کی کارکردگی، خواتین، بچوں اور انسانی حقوق کا تحفظ اور امن و امان کی صورتحال شامل ہیں۔ خواتین ارکان کی جانب سے پیش کئے گئے قانون سازی کے ایجنڈے میں خواتین کے حقوق، خواجہ سرائوں کے حقوق، خواتین اور بچوں کے بہتر تحفظ کیلئے فوجداری قوانین میں ترامیم، صحت کی اصلاحات، کارکنوں کے حقوق کا تحفظ اور ادارہ جاتی اصلاحات شامل تھیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات