یہ روایت ہے کہ جج کے استعفا دینے پر جوڈیشل کونسل کی کاروائی رک جاتی رہی

جسٹس اعجازالاحسن کے خلاف کافی دستاویزات لگا کردرخواست تیار کی جارہی ہے، کافی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ان جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کاروائی چلتی رہے۔ سینئر صحافی حامد میر کی گفتگو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 11 جنوری 2024 19:26

یہ روایت ہے کہ جج کے استعفا دینے پر جوڈیشل کونسل کی کاروائی رک جاتی ..
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 11 جنوری 2024ء) سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ یہ روایت ہے کہ جج کے استعفا دینے پر جوڈیشل کونسل کی کاروائی رک جاتی رہی، جسٹس اعجازالاحسن کے خلاف کافی دستاویزات لگاکردرخواست تیار کی جارہی ہے،کافی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ان جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کاروائی چلتی رہے۔ انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ججز صاحبان جو استعفے دے رہے ہیں، اس حوالے سے سب کو پتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک گروپنگ ہے، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجازالاحسن کے استعفے ایسے ججز کے ہیں جو جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف گروپ سمجھا جاتا ہے، یہ جو استعفے آرہے ہیں اس دوران ہم الیکشن کی طرف بھی جارہے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ اس پر زیادہ توجہ رہے گی، جسٹس اعجازالاحسن کے خلاف جو درخواست تیار کی جارہی ہے، وہ بہت ہی بڑی درخواست ہے اور اس کے ساتھ کافی دستاویزات لگائی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

حامد میر نے کہا کہ میں نے ماضی میں دیکھا کہ جب کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست جاتی ہے، بعض اوقات نوٹس بھی تیار نہیں ہوتا کہ جج استعفا دے دیتا ہے۔کچھ مثالیں ایسی بھی ہیں کہ جج کو نوٹس جاری ہوا تو جج صاحب مستعفی ہونے پر کاروائی وہاں پر ہی رک گئی۔ سپریم کورٹ کی روایت تو یہی ہے۔ اسی طرح ماضی قریب میں ابھی ایک جج صاحب کے خلاف درخواست آئی تو انہوں نے استعفا دے دیا تو ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔

لیکن یہ جج صاحبان انہوں نے بہت سارے سیاسی مقدمات میں کچھ ایسے فیصلے دیئے ہیں کہ کافی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ان جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کاروائی چلتی رہے بند نہ ہونے پائے۔ یاد رہے آج سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اعجاز الاحسن بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کو اکتوبر 2024 میں ملک کا اگلا چیف جسٹس بننا تھا۔

ذرائع کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنا تحریری استعفی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کیا ہے تاہم ابھی اس کا متن سامنے نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ آج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کی کارروائی میں جسٹس اعجاز الاحسن نے بظور ممبر شرکت سے انکار کردیا تھا۔ چیئرمین قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا تو جسٹس سردار طارق مسعود ،چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بطور رکن اجلاس میں شریک ہوئے تاہم ممبر جسٹس اعجاز الاحسن شریک نہیں ہوئے تھے۔

جسٹس اعجاز الاحسن سپریم کورٹ میں سینیارٹی لسٹ میں جسٹس طارق کے بعد دوسرے نمبر پر تھے اور وہ انہیں آئندہ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن کے استعفے کے بعد جسٹس منصورعلی شاہ آئندہ چیف جسٹس پاکستان ہوں گے۔