نااہلی کیس میں سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی قاسم سوری کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا

منگل 23 جنوری 2024 17:36

نااہلی کیس میں سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی قاسم سوری کو ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جنوری2024ء) سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نااہلی کیس میں قاسم سوری کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ عدالت نےقاسم سوری کو اپنے دستخط کے ساتھ خود جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔رجسٹرار سپریم کورٹ سے بھی جواب طلب کر لیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے منگل کو یہاں قاسم سوری کی گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالہ سے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے موقع پر لشکری رئیسانی کے وکیل نے دلائل دیئے کہ قاسم سوری غیر قانونی طور پر عہدہ پر براجمان رہے۔ انہوں نے سٹے آرڈر پر اپنا عہدہ سنبھالے رکھا۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ قاسم سوری سے مراعات واپس لینی چاہئیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس آف پاکستان نے قاسم سوری کے وکیل نعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قاسم سوری ملک میں آئینی بحران کی وجہ بنے۔

انہوں نے کہا کہ کیوں نہ قاسم سوری کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی کریں؟ نعیم بخاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ قاسم سوری کا مقدمہ دیگر کیسز کے ساتھ عدالت نے یکجا کر دیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکم امتناع لینے کے بعد مقدمہ سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندرونی سسٹم کے ساتھ ہیرا پھیری کی گئی۔

سپریم کورٹ میں رسائی رکھنے والے لمبے ہاتھ ختم کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مقدمات کیسے یکجا کرائے جاتے ہیں، معلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمہ کیسے یکجا ہوا اور اتنا عرصہ کیوں مقرر نہ ہوا، اس حوالہ سے اپنی انکوائری بھی کریں گے۔ اگر سپریم کورٹ استعمال ہوئی تو اسے ٹھیک کرنا ہو گا۔ یہ صرف ہمارا ادارہ نہیں ہے بلکہ سب کا ہے۔ چیف جسٹس نے قاسم سوری کے وکیل سے سوال کیا کہ جب اسمبلی تحلیل کی گئی تھی، کیا آپ اس وقت بھی حکم امتناع پر تھے؟ وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ اس وقت حکم امتناع پر ہی تھے۔

انہوں نے موقف اپنایا کہ میری نظر میں تو اب قاسم سوری کی نااہلی اور ان کے حلقہ میں دوبارہ انتخابات کا معاملہ غیر موثر ہو چکا ہے۔چیف جسٹس نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ قاسم سوری نے حکم امتناع لے کر پوری اسمبلی کو انجوائے کیا۔ اب کہہ رہے ہیں اسمبلی ختم تو کیس غیر موثر ہو گیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ میں مقدمہ نہ لگوانے کیلئے کوئی حربہ استعمال کیا؟ انہوں نے کہا کہ اگر کچھ غلط ہوا تھا تو 2018 کا پورا الیکشن نکال کر دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ عہدہ انجوائے کیا اور چلے گئے۔ انہوں نے سوال کیا کہ قاسم سوری نے استعفی کب دیا تھا؟ قاسم سوری کے وکیل نعیم بخاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ قاسم سوری نے 16 اپریل 2022 کو استعفی دیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ قاسم سوری نے غیر قانونی طور پر اسمبلی توڑی۔ ان کے بارے میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ میں آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کی کارروائی کی تجویز دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کیوں نہ قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری کی کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس کسی نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی اس کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے قاسم سوری کا کیس سماعت کیلئے مقرر نہ ہونے اور سٹے برقرار رہنے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تین ہفتے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے قاسم سوری کے حریف لشکری رئیسانی کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ نے رجسٹرار آفس کو تین ہفتوں میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ تک کیلئے ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں این اے 265 میں قاسم سوری پر دھاندلی سے الیکشن جیتنے کا الزام لگایا گیا تھا۔بی این پی کے لشکری رئیسانی نے اس کامیابی کو چیلنج کرتے ہوئے حلقہ میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی تھی جس پر الیکشن ٹربیونل نے الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد قاسم سوری نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

اس وقت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر قاسم سوری کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے عہدہ پر بحال کر دیا تھا اور حلقہ میں دوبارہ انتخاب کے فیصلہ کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا تھا جس کے بعد کیس کی سماعت ہی نہ ہوئی۔