مودی حکومت مسلمانوں کی املاک مسمار کرنا بند کرے، ایمنسٹی

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 8 فروری 2024 12:20

مودی حکومت مسلمانوں کی املاک مسمار کرنا بند کرے، ایمنسٹی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2024ء) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے املاک کی مسماری کو ماورائے عدالت سزا کی ایک شکل قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے کیونکہ مودی حکومت کے اس اقدام نے سینکڑوں لوگوں کو، جن میں بیشتر مسلمان ہیں، بے گھر اور ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا ہے۔

ایمنسٹی نے جے سی بی تعمیراتی سازو سامان تیار کرنے والی کمپنی سے بھی مطالبہ کیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اپنی مشینوں کے استعمال کی عوامی مذمت کریں۔

اسی کمپنی کے بلڈوزر"بطور سزا" املاک کو مسمار کرنے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے ہیں۔

بلڈوزر کی سیاست

ایمنسٹی نے دو رپورٹوں Bulldozer Injustice in India اور JCB's Role and Responsibility in Buldozer Injustice in India میں صرف تین ماہ یعنی اپریل سے جون 2022کے درمیان کم ا ز کم 128 املاک کو مسمار کیے جانے کی دستاویز بندی کی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے کم از کم 617 لوگ یا تو بے گھر ہوگئے یا ان کا ذریعہ معاش تباہ ہو گیا۔

بھارت: شرپسندوں کا مسجد پر حملہ اور لوٹ مار

اس میں کہا گیا ہے کہ پانچ ریاستوں، آسام، گجرات، مدھیا پردیش، اترپردیش اور دہلی میں حکام نے مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے واقعات کے بعد "سزا" کے طورپر ان کی املاک مسمار کیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، کی ان پانچ میں سے چار میں حکومت ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ کا کہنا تھا،"بھارتی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی مسماری، جسے سیاسی لیڈران اور میڈیا 'بلڈوزر انصاف' کہتی ہے، ظالمانہ اور خوفنا ک ہے... وہ خاندانوں کو تباہ کررہے ہیں۔ اسے فوری طورپر روکا جانا چاہئے۔"

بدھ کے روز جاری بیان میں کالمارڈ نے مزید کہا، "حکام نے نفرت، ایذارسانی، تشدد اور جے سی بی بلڈوزر کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے بار بار قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا، گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کیا۔

انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر فوراً توجہ دی جانی چاہئے۔"

املاک کو بلڈوز کرنے کا سلسلہ جاری

گزشتہ ماہ ایودھیا شہر میں وزیر اعظم مودی کے ذریعہ رام مندر کے افتتاح کے بعد فرقہ وارانہ تشدد بھڑکنے کے بعد بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا۔

بھارت: گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت پر مسلمانوں کا شدید ردعمل

اس سے قبل قومی دارالحکومت دہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھا۔

سن 2021 میں اترپردیش کے بارہ بنکی ضلع میں 100سال قدیم مسجد کو منہدم کردیا گیا جب کہ سن 2023 میں پریاگ راج شہر میں سڑک کی توسیع کے نام پر سولہویں صدی کی ایک مسجد مسمار کردی گئی ہے۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص یوگی آدیتیہ ناتھ کے اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے، جنہوں نے فوری انصاف کی فراہمی کے نام پر ملزمین کی املاک کو مسمار کردینے کی پالیسی شروع کی۔

ان کے بعد بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

قانونی ماہرین اسے بھارتی قانون کے خلاف قرار دیتے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن'بلڈوزر انصاف' کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

بھارت میں پچھلے چھ ماہ میں ڈھائی سو سے زائد نفرت انگیز تقاریر، رپورٹ

حالانکہ بی جے پی کے رہنماوں کا دعویٰ ہے کہ مسماری کے یہ واقعات دراصل غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ہیں اور صرف مجرموں یا بدمعاشوں کی ملکیت کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ افراد مسماری کے واقعات پر جشن بھی مناتے ہیں۔

کیا بلڈوز کرنا قانونی ہے؟

سول سوسائٹی کے اراکین، سماجی کارکنان اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ عمارتوں کو اس طرح مسمار کرنا مسلمانوں جیسی اقلیتی برادری کے خلاف "ٹارگیٹیڈ وائلنس" کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔

بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تعلق رکھنے والی سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے دہلی میں مسماری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کو تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

بھارت میں ہزاروں مسلم کنبوں کو بے گھر کردیے جانے کا خدشہ

ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسماری مناسب قانونی عمل کی پیروی کے بغیر کی گئی۔

عمارتوں کے مکینوں کو مسمار کرنے سے پہلے انتباہ نہیں کیا گیا یا انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنے اور اپنا سامان بچانے کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا۔ ایمنسٹی نے مسماری سے متاثر ہونے والے 75 افراد سے بات چیت کی جن میں سے صرف چھ کو حکام کی جانب سے کسی قسم کی پیشگی اطلاع موصول ہوئی تھی۔

دہلی کے مضافاتی علاقے نوح میں ہونے والی انہدامی کارروائیوں کے تناظر میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ "یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امن و قانون کے مسئلے کی آڑ میں کسی ایک مخصوص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی عمارتوں کو گرایا جا رہا ہے اور ریاست کی جانب سے نسلی صفائی کی مشق کی جارہی ہے۔

" عدالت کا کہنا تھا کہ مسمار کرنے سے قبل قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور املاک سے محروم ہوجانے والوں کو پیشگی نوٹس بھی جاری نہیں کیے گئے۔

ہریانہ میں پرتشدد واقعات سے بھارت کی ساکھ کو نقصان

ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ"بھارت اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی ای ایس سی آر) کا دستخط کنندہ ہے، جس کے تحت وہ مناسب رہائش کے حق کا احترام کرنے اور اسے پورا کرنے کا پابند ہے، جس میں مناسب رہائش کا حق، کام کرنے کا حق اور سماجی تحفظ کا حق بھی شامل ہے۔

"

بلڈوزر کمپنی جے سی بی کتنی ذمہ دار ہے؟

ایمنسٹی نے پایا کہ برطانیہ میں مقیم Joseph Cyril Bamford Excavators (JCB) کے تیار کردہ بلڈوزر عام طورپر ان انہدامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جے سی بی بلڈوزر بھارت میں عمارتوں کے انہدام کا ایک ایسا نمایاں حصہ ہیں کہ "جے سی بی" اور "بلڈوزر" کو ایک دوسرے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔

بی جے پی کے لیڈران جے سی بی کے استعمال میں رطب اللسان ہیں۔ بی جے پی کے ترجمان جی وی ایل نرسمہا راو نے اپریل 2022 میں ایک پوسٹ میں جے سی بی کو "جہاد ی کنٹرول بورڈ" کہا تھا۔ انہوں نے تاہم اب یہ پوسٹ حذف کردیا ہے۔

بھارت: کشمیر میں بھی بلڈوزر سے انہدام کی کارروائی شروع

ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جے سی بی اس بات کا تعین کرنے کے لیے ذمہ دار ہے کہ آیا اس کی مشینری کو تعزیری انہدام کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور اس کے فروخت کے معاہدوں میں ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کم کرتی ہیں۔

ایمنسٹی نے مزید کہا کہ "کمپنی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اپنی مشینری کے استعمال کی عوامی سطح پر مذمت کرنی چاہئے۔ "

دریں اثنا جے سی بی نے ایمنسٹی کو ارسال کردہ اپنے جواب میں کہا ہے کہ جے سی بی اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے اور اس کی زیادہ تر مشینری جے سی بی انڈیا کے ذریعہ آزاد تھرڈ پارٹی ڈیلرز کے ذریعہ فروخت کی جاتی ہے۔

کمپنی نے یہ بھی کہا کہ جے سی بی صارفین کو ایک بار فروخت ہونے کے بعد اپنی مصنوعات کے استعمال کو کنٹرول نہیں کر سکتا اور جے سی بی کو اس کی مصنوعات یا اس کے ڈیلرشپ نیٹ ورک کا استعمال کرنے والوں پر کوئی اختیار نہیں ہے۔

خیال رہے کہ ایمنسٹی پہلے بھی جے سی بی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث قرار دے چکی ہے۔