مودی حکومت مسلمانوں کی املاک مسمار کرنا بند کرے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

جمعرات 8 فروری 2024 16:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 فروری2024ء) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی متعددریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادتگاہوں کو منہدم کرنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے بھارتی حکام سے مسلمانوں کی املاک کی "غیر قانونی" مسماری کاسلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں کی املاک کی مسماری کو ماورائے عدالت سزا کی ایک قسم قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے کیونکہ مودی حکومت کے اس اقدام نے سینکڑوں لوگوں کو، جن میں بیشتر مسلمان شامل ہیں، بے گھر اور ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا ہے۔

ایمنسٹی نے جے سی بی تعمیراتی سامان تیار کرنے والی کمپنی سے بھی مطالبہ کیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے اپنی مشینوں کے استعمال کی عوامی مذمت کریں۔

(جاری ہے)

اسی کمپنی کے بلڈوزر"بطور سزا" املاک مسمار کرنے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے ہیں۔ بلڈوزر کی سیاست ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ''بھارت میں بلڈوزر کی ناانصافی اوربھارت میں بلڈوزر کے ذریعے ناانصافی میں بے سی بی کے کردار اور ذمہ داری ''کے عنوان سے اپنی دو رپورٹوںمیں صرف تین ماہ یعنی اپریل سے جون 2022کے درمیان کم ا ز کم 128 املاک کو مسمار کیے جانے کے واقعات کے دستاویز ی شواہد مرتب کئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان واقعات میں کم سے کم 617 لوگ بے گھر ہوئے یا ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا گیا۔ رپورٹ میں بھارت میں ہندو شدت پسندوں کا مسجد پر حملہ اور لوٹ مار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پانچ ریاستوں، آسام، گجرات، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور دہلی میں بھارتی حکام نے مذہبی تشدد یا حکومت کی نفرت انگیزپالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے واقعات کے بعد "سزا" کے طورپر ان کی املاک مسمار کیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، کی ان پانچ میں سے چار ریاستوں میں حکومت ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ نے ایک بیان میں کہاہے کہ بھارتی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی املاک غیر قانونی طورپرمسمارکی گئی ہیں، جسے سیاسی لیڈرز اور میڈیا 'بلڈوزر انصاف' کہتی ہے، ظالمانہ اور خوفنا ک ہے۔

اس سلسلے کو فوری طورپر روکاجانا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہاکہ بھارتی"حکام نے نفرت، ایذارسانی، تشدد اور جے سی بی بلڈوزر کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے بار بار قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا، گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کیا۔ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر فورا توجہ دی جانی چاہئے۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی املاک کو بلڈوز کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ ماہ ایودھیا میں وزیر اعظم مودی کی طرف سے متنازعہ رام مندر کے افتتاح کے بعد فرقہ وارانہ تشدد بھڑکنے کے بعد ممبئی میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو بلڈوزر سے مسمار کیا گیا۔

گیان واپی مسجد میں ہندوئوں کو پوجا کی اجازت ملنے پر مسلمانوں نے شدید ردعمل ظاہر کیاہے ۔ اس سے قبل نئی دہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھا۔2021میں اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی میں 100سالہ قدیم مسجد کو منہدم کردیا گیا تھاجبکہ گزشتہ 2023میں پریاگ راج شہر میں سڑک کی توسیع کے نام پر سولہویں صدی کی ایک اورمسجد مسمار کردی گئی ۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص یوگی آدیتیہ ناتھ کے اترپردیش کا وزیر اعلی بننے کے بعد سے، جنہوں نے فوری انصاف کی فراہمی کے نام پر ملزمین کی املاک کو مسمار کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے ۔ ان کے بعد بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اس پالیسی پر عمل کررہی ہیں۔

قانونی ماہرین اسے بھارتی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اورسپریم کورٹ نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن بھارت میں'بلڈوزر انصاف' کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بھارت میں گزشتہ چھ ماہ میں ڈھائی سو سے زائد نفرت انگیز تقاریر، رپورٹ ہوئیں حالانکہ بی جے پی کے رہنمائوں کا دعوی ہے کہ یہ املاک مسمار دراصل غیر قانونی تجاوزات تھیں جنہیں مسمار کیاگیا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ افراد مسلمانوں کی املاک مسمارہونے کے واقعات پر جشن بھی مناتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے اراکین، سماجی کارکنان اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ عمارتوں کو اس طرح مسمار کرنا مسلمانوں جیسی اقلیتی برادری کے خلاف "ٹارگیٹیڈ وائلنس" کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تعلق رکھنے والی سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے دہلی میں مسماری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کو تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا گیا۔

بھارت میں ہزاروں مسلم کنبوں کو بے گھر کردیے جانے کا خدشہ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسماری مناسب قانونی عمل کی پیروی کے بغیر کی گئی۔ عمارتوں کے مکینوں کو مسمار کرنے سے پہلے انتباہ نہیں کیا گیا یا انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنے اور اپنا سامان بچانے کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا۔ ایمنسٹی نے مسماری سے متاثر ہونے والے 75 افراد سے بات کی جن میں سے صرف چھ کو حکام کی جانب سے کسی قسم کی پیشگی اطلاع موصول ہوئی تھی۔