پاکستان میں آٹزم میں مبتلا بچوں کی بہتری کیلئے مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ تیار

دو سال کی ریسرچ اور آزمائش کے بعد اب ٹم ٹم کو کمرشل طور پر مارکیٹ میں متعارف کرادیا گیا ہے ،سی ای اومحمدعلی عباس

اتوار 11 فروری 2024 15:40

&کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 فروری2024ء) پاکستان میں آٹزم میں مبتلا بچوں کی بہتری کے لیے مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ تیار کرلیا گیا جوکہ آئندہ ماہ مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوگا جبکہ ایک سال میں اس روبوٹ کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں متعارف کرایا جائے گا۔آٹزم میں مبتلا بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کی بہتری اور سماجی رابطے بنانے میں مدد فراہم کرنے والا پاکستان میں تیار کردہ روبوٹ آئندہ سال سے ایکسپورٹ کیا جائے گا، روبوٹ کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے امریکا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اداروں نے گہری دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے خریداری اور جوائنٹ وینچر کی بھی پیشکش کی ہے۔

اپنی نوعیت کا منفرد روبوٹ پاکستان کی ٹیک اسٹارٹ اپ کمپنی Haprow نے تیار کیا ہے جسے Tim Tim کا نام دیا گیا ہے جو سماجی طور پر معاون روبوٹ جسے آٹسٹک بچوں کی مدد اور ان کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ٹم ٹم دنیا بھر میں روبوٹ بیسڈ انٹروینشن کے بارے میں ہونے والے عالمی مطالعے کا حصہ ہے جس کے پاکستان میں بہت اچھے نتائج ملے ہیں۔م یڈیکل اور ہیلتھ سائنسز میں انجینئرنگ ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ جامع اور ہمدرد معاشرہ کی تشکیل Haprow کا نصب العین ہے۔

Haprow کے بانی سی ای او محمد علی عباس کے مطابق ٹم ٹِم صرف ایک روبوٹ نہیں ہے۔ یہ آٹزم سپیکٹرم پر بچوں کے لیے ایک دوست اور سرپرست ہے۔ اس جدید معاون ٹیکنالوجی کو آٹسٹک سی کی منفرد ضروریات کی گہری سمجھ کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ٹم ٹم مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے لیس آٹزم میں مبتلا بچوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور آزادی سے حرکت کرسکتا ہے اس کے لیے خصوصی مواد تیار کیا گیا ہے جس سے آٹزم میں مبتلا بچوں کو سکھایا اور پڑھایا جاسکتا ہے اس کا منفرد ڈیزائن پاکستان میں ہی تیار کیا گیا جبکہ آلات اور پرزہ جات درآمد کیے گئے ہیں۔

ٹم ٹم کو استعمال کرنے کے لیے خصوصی ایپلی کیشن تیار کی گئی ہے جو آٹزم میں مبتلا بچوں کی دیکھ بھال کرنے والوں اور والدین باآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک مصنوعی ذہانت سے چلنے والا روبوٹ ہے جو دو طرفہ بات چیت (کمیونی کیشن)کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فی الوقت اس روبوٹ کی کمیونی کیشن صلاحیت دو زبانوں اردو اور انگریزی تک محدود ہے تاہم اس میں بیک وقت کئی زبانوں میں بات چیت کرنے کی صلاحیت شامل کی جاسکتی ہے۔

ٹم ٹم کا بیٹری ٹائم سات گھنٹے ہے اس دوران ٹم ٹم خودکار طریقے سے حرکت کرنے کے ساتھ کمیونی کیشن کرتا ہے۔ اسے انفرادی طور پر کسی ایک بچے کے ساتھ سوشلائز کرانے یا سیشن کی شکل میں ایک سے زائد بچوں کے ساتھ بات چیت کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ٹم ٹم کی کارکردگی کی آزمائش ڈاکٹرز اور تھراپسٹس کی ٹیم کے ذریعے کی جا رہی ہے جن میں انڈسٹری کے ماہر پروفیشنلز اور ریسرچرز شامل ہیں۔

ٹم ٹم کی آزمائش آٹزم میں مبتلا تیس بچوں پر کی گئی جس کے بہت اچھے نتائج ملے ہیں ان نتائج پر تحقیقی مقالہ تیار کیا گیا ہے جسے انٹرنیشنل ریسرچ جنرل میں شایع کرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس آزمائش کے نتائج میں آٹزم میں مبتلا بچوں کے ساتھ فطری ردعمل دیکھا گیا اور ان بچوں کی توجہ بھی بہت حد تک فوکس رہی۔ بچوں نے روبوٹ کی باتوں کو غور سے سنا اور اس پر فوری ردعمل دیا، ٹم ٹم کے ساتھ بات چیت کرنے والے آٹزم میں مبتلا بچوں میں سیکھنے کی جستجو اور لاجیکل تھنکنگ بھی نمایاں طور پر بہتر ہوتی دیکھی گئی۔

ٹم ٹم سے آٹزم کے بچوں کو آسانی سے سکھایا گیا کہ وہ الگ الگ طرح کی صورتحال میں کس طرح کا ردعمل ظاہر کریں اس طرح ان کے سماجی طور پر گھلنے ملنے کے عمل کو آسان بنایا گیا۔Haprow کے بانی سی ای او محمد علی عباس نے بتایا کہ دو سال کی ریسرچ اور آزمائش کے بعد اب ٹم ٹم کو کمرشل طور پر مارکیٹ میں متعارف کرادیا گیا ہے اور پاکستان میں دو بڑے طبی اداروں کو دو یونٹس فروخت کرنے کے لیے بات چیت حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے امید ہے کہ ایک ماہ میں مقامی سطح پر ٹم ٹم کی فروخت شروع ہوجائے گی۔

ٹم ٹم کا پیٹنٹ اپلائی کیا جاچکا ہے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل سے سرٹیفکیشن بھی پراسیس میں ہے جس کی تکمیل کے بعد اگلے ایک سال میں اسے انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔محمد علی عباس نے بتایا کہ پاکستان میں ایک ملین سے زائد بچے آٹزم کا شکا رہیں عالمی سطح پر یہ تناسب پاکستان سے زیادہ ہے اس لیے ٹم ٹم پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں آٹزم میں مبتلا بچوں کی کمیونی کیشن صلاحیت کو بہتر بنانے میں معاونت کرسکتا ہے۔

ٹم ٹم کو ماحول اور ضرورت کے لحاظ سے کسٹمائز کیا جاسکتا ہے اور اس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں موجود سلوشنز سے کافی کم ہے جس کی وجہ سے ٹم ٹم کے لیے امریکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مارکیٹ میں بہت امکانات ہیں جن سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔محمد علی عباس نے بتایا کہ بین االقوامی دو سے تین بڑی آرگنائزیشنز سے بہت اچھا رسپانس ملا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ملکوں میں جاکر کام کریں ان ملکوں میں امریکا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں جہاں کے سرمایہ کار بھی ٹم ٹم میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں رہ کر کام کریں اور عالمی اداروں یا سرمایہ کاروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے ڈیولپ کریں۔

انہوں نے بتایا کہ گلوبل مارکیٹ میں ٹم ٹم جیسا روبوٹ پانچ ہزار ڈالر تک کا فروخت کیا جارہا ہے اور اس کے مواد کی سبسکرپشن فیس الگ ہوتی ہے، پاکستان میں تیار کردہ روبوٹ سبسکرپشن کے ساتھ 70 فیصد کم قیمت پر فروخت کیا جائے گا۔ اداروں کو فروخت کیے جانے کی صورت میں اسٹاف کو تربیت بھی فراہم کی جائے گی اور ایک مناسب سبسکرپشن فیس پر سالانہ بنیادوں پر کنٹینٹ بھی اپ گریڈ کیا جائے گا۔

آٹزم میں مبتلا بچوں کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے اب تک پانچ روبوٹس تیار کیے جاچکے ہیں۔ Haprow ٹیم ماہانہ 40 اور سالانہ پانچ سو کے لگ بھگ روبوٹس تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کمپونینٹس کی درآمد کے عمل اور دیگر پراسیجرز کی رفتار بڑھانے کے ساتھ روپے کی قدر بہتر ہونے سے اس کی لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔