یہ پارلیمان چلنے والا نہیں، سیاسی اور معاشی عدم استحکام رہے گا

فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گے عہدے ان کے پاس ہوں گے، اس مرتبہ معاملہ آگے چلا گیا ہے اب سیاست کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہوگا، احتجاج کرنا ہوگا کہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان کی گفتگو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 15 فروری 2024 21:42

یہ پارلیمان چلنے والا نہیں، سیاسی اور معاشی عدم استحکام رہے گا
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 15 فروری 2024ء) جمیعت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ یہ پارلیمان چلنے والا نہیں، سیاسی اور معاشی عدم استحکام رہے گا، فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گے عہدے ان کے پاس ہوں گے،اس مرتبہ معاملہ آگے چلا گیا ہے اب سیاست کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہوگا، احتجاج کرنا ہوگا کہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں ہوگی۔

 انہوں نے سماء نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں بھی دھاندلی ہوئی تھی اب بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ بظاہر الیکشن میں دھاندلی کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا ہے، افواہ ہے کہ نوازشریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم میں اختلافات کے باوجود ہم اکٹھے چل رہے تھے، پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی، میں اگر تحریک عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہا ہوں، میرے پاس فیض حمید آئے اور کہا کہ سسٹم میں رہ کر جو کرنا چاہیں کرسکتے ہو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، فیض حمید نے کہا کہ سسٹم سے ہٹ کر نہیں سسٹم میں رہ کرکریں۔

(جاری ہے)

، سسٹم میں رہ کر مزاحمت کرنے کا مطلب اسمبلیوں میں بیٹھ کر کرنا ہے لیکن میں نے انکار کردیا تھا۔ تحریک عدم اعتماد جنرل باجوہ کے کہنے پر لائی گئی، پی ٹی آئی، بی اے پی ، ایم کیوایم والے جب آئے تو پھر کہا گیا اب ہمارے پاس اکثریت ہے، پی ٹی آئی کے اتحادی اور لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آرہے تھے، جب یہ لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آئے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، پی ٹی آئی کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے ہی بنائی اور انہوں نے ہی گرائی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمیدکی موجودگی میں سب کو کہا گیا کہ آپ نے ایسے کرنا ہے، اس پر بعد میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے مہر لگائی۔

انہوں نے کہا کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، میری نظر میں موجودہ پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں، ہم پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جارہے ہیں، ہم حکومت سازی کا حصہ نہیں اگر حکومت میں شامل ہوتے تو ن لیگ کو سپورٹ کرتے، ہم نے پہلے بھی مسلم لیگ ن کی سپورٹ کی تھی آئندہ بھی کرتے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کا مئوقف ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں تو پھر 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا ، اگر شفاف الیکشن کا مئوقف مان لیا جائے تو کیا پھر لوگوں نے غداروں کو ووٹ دیئے؟ میرا اصل مسئلہ اور دعویٰ تو اسٹیبلشمنٹ پر ہے، میں ایسی حکومت بنانے کو کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا، حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو اچھے برے کے خود ذمہ دار ہوں گے۔

ہمارا مئوقف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے ہم سے دھاندلی کی گئی۔ شہبازشریف آئے تھے ہم نے کہا کہ اپوزیشن میں بیٹھیں جواب دیئے بغیر چلے گئے۔ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ دماغ ملنے کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے، جب پی ٹی آئی والے آئیں تو پتا چلے گا کیا بات کرتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ حکومت بنانے کیلئے آرہے ہیں یا پھر دھاندلی کے خلاف آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمان چلنے والا نہیں، سیاسی اور معاشی عدم استحکام رہے گا، فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گے عہدے ان کے پاس ہوں گے،اس مرتبہ معاملہ آگے چلا گیا ہے اب سیاست کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہوگا، احتجاج کرنا ہوگا کہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں ہوگی۔