'مودی حکومت کے حکم پر عمل ہو گا، تاہم اس سے متفق نہیں ہیں‘

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 22 فروری 2024 16:20

'مودی حکومت کے حکم پر عمل ہو گا، تاہم اس سے متفق نہیں ہیں‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2024ء) ایلون مسک کی ملکیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) نے تصدیق کی ہے کہ اس نے بھارتی حکومت کے ایگزیکٹیو آرڈرز کی تعمیل کرتے ہوئے بھارت میں جاری کسانوں کے احتجاج کے متعلق مخصوص اکاؤنٹس اور پوسٹس معطل کر دیے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ایکس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی ہدایات سے اختلاف کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ وہ آزادی اظہار سے اپنی وابستگی کے اصول پر قائم ہے۔

ایکس نے اپنے عالمی حکومتی امور کے ہینڈل سے بدھ کو رات گئے پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ شمالی بھارت کے کچھ حصوں میں کسانوں کے جاری احتجاج سے متعلق بعض اکاؤنٹس اور پوسٹس خالصتاً مودی حکومت کے جاری کردہ ایگزیکٹیو آرڈرز کی وجہ سے ہٹا دیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے جرمانے اور سزائے قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔

ٹوئٹر نے بھارتی حکام کے 'اختیارات کے بے جا استعمال‘ کو عدالت میں چیلنج کر دیا

ایکس کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ قانونی پابندیوں کی وجہ سے بھارت کی مرکزی حکومت کے احکامات کو شائع کرنے سے قاصر ہے لیکن اس کا خیال ہے: ''شفافیت کے لیے ان کا عوامی طور پر شائع کرنا ضروری ہے۔‘‘

بھارت نے ان الزامات کا جواب اب تک نہیں دیا، جو گزشتہ شب ایکس پر شائع کردہ ایک پوسٹ میں لگائے گئے تھے۔

ایکس نے گو کہ پلیٹ فارم سے ہٹائے گئے اکاؤنٹس اور پوسٹس کی نشاندہی نہیں کی تاہم بعض ذرائع کے مطابق کسانوں کے احتجاج سے متعلق تقریباً 177 اکاؤنٹس اور ویب لنکس بلاک کر دیے گئے ہیں۔

ایکس نے بتایا کہ وہ اپنی پالیسیوں کے مطابق ان متاثرہ اکاؤنٹس کو ان کے بلاک کیے جانے کی اطلاع دے رہا ہے۔

ایکس نے اپنے بیان میں مزید کہا، ''ہم نے ان احکامات کی تعمیل میں صرف بھارت میں ان اکاؤنٹس اور پوسٹس کو بلا ک کیا ہے لیکن ہم اپنے ان اقدامات سے متفق نہیں ہیں اور اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ان پوسٹس کو شائع کیا جانا چاہیے۔

‘‘

مودی حکومت اور ایکس کے مابین رسہ کشی

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ایکس کو نئی دہلی حکومت کے احکامات ماننے کے لیے مجبور ہونا پڑا اور اسے بعض مخصوص اکاؤنٹس بند کرنا پڑے۔

بھارت کا ٹوئٹر کو بند کرنے کی دھمکی دینے کے الزام سے انکار

بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت والی نریندر مودی انتظامیہ اور ایکس کے درمیان مسلسل رسہ کشی ہوتی رہی ہے۔

ٹوئٹر کے بانی اور سابق سی ای او جیک ڈورسی نے گز شتہ سال دعویٰ کیا تھا کہ مودی حکومت نے دھمکی دی تھی کہ اگر ٹوئٹر نے حکومت مخالف پوسٹس نہ ہٹائیں، تو اس کے ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور کمپنی بند کر دی جائے گی۔ یہ معاملہ بعد میں سیاسی تکرار میں تبدیل ہو گیا تھا۔

بھارتی دباؤ کی وجہ سے کچھ ٹوئٹر اکاؤنٹس بند کر دیے گئے

مودی حکومت نے سن 2021 میں ٹوئٹر کو بعض مبینہ اشتعال انگیز ہیش ٹیگس کو بلاک کرنے کے لیے کہا تھا۔

ٹوئٹر نے ابتدا میں اس مطالبے کو تسلیم کر لیا تھا لیکن بعد میں ''ناکافی جواز‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں بحال کر دیا تھا۔ اس کے چند ہفتے بعد بھی بھارتی پولیس حکام ٹوئٹر کے دفتر پہنچ گئے تھے۔

مودی حکومت نے جنوری 2023میں ٹوئٹر کو بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کی ویڈیو کے لنک والی 50 سے زائد ٹویٹس بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ دستاویزی فلم گجرات کے ان فسادات کے متعلق تھی، جن کے لیے ریاست گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔

گجرات فسادات اور مودی: بھارت میں دستاویزی فلم پر پابندی

ایلون مسک نے اس اقدام کے سلسلے میں کہا تھا، ''ہمارے پاس صرف ایک ہی انتخاب تھا۔ یا تو ہم اپنے کارکنوں کو جیل جانے دیتے یا پھر قانون پر عمل درآمد کرتے۔ ہمیں مجبوراﹰ (بھارتی) قانون پر عمل کرنا پڑا۔‘‘