کشمیر کی آزادی، پاکستان کے ساتھ اس کا تعلق اور اسلام کی سربلندی ایک حقیقت کے تین پہلو ہیں جن کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے، پروفیسر خورشید احمد کا سیمینار سے خطاب

ہفتہ 9 مارچ 2024 20:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 مارچ2024ء) تجربہ کار سیاست دان، ماہر اقتصادیات اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)کے سرپرست اعلی پروفیسر خورشید احمد نے کہا ہے کہ کشمیر کی آزادی، پاکستان کے ساتھ اس کا تعلق اور اسلام کی سربلندی ایک حقیقت کے تین پہلو ہیں جن کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ یہ بات انہوں نے لندن میں قائم ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ (ڈبلیو کے ایف ایم) کے بانی ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی 20 ویں برسی کے موقع پر منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہی جو (آج) اتوار 10 مارچ کومنائی جائے گی۔

آئی پی ایس اسلام آباد میں جدوجہد آزادی کشمیر کی عظیم شخصیت کو یاد کرنے کے لیے'کشمیر اور عالمی ضمیر: ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی زندگی اور خدمات کی روشنی میں ایک مباحثہ' کے عنوان سے ایک ہائبرڈ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

(جاری ہے)

سیمینار سے آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمن، آئی پی ایس کے مشیر ریسرچ اینڈ اکیڈمک آٹ ریچ پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈبلیو کے ایف ایم کے صدر اور مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کے بیٹے مزمل ایوب ٹھاکر، مورخ و مصنف وکٹوریہ شوفیلڈ، تحریک حریت جموں و کشمیر کے کنوینر غلام محمد صافی، ڈائریکٹر لیگل فورم فار کشمیر ناصر قادری ایڈوکیٹ نے خطاب کیا۔

اس موقع پر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے رہنما عبدالرشید ترابی، کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر چیپٹر کے کنوینر محمود احمد ساغر، ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی اور ڈبلیو کے اے ایف کے صدر ڈاکٹر غلام احمد میر شریک ہوئے ۔ پروفیسر خورشید نے ایوب ٹھاکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نہ صرف مسلم کمیونٹی کو متحرک کیا بلکہ سیاسی، سفارتی اور تعلیمی حلقوں میں عالمی سطح پر کشمیر کاز کی نمائندگی بھی کی۔

ڈاکٹر ٹھاکر نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی دنیا بھر کے مظلوم طبقات بالخصوص مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی۔ کشمیری عوام میں امید پیدا کرنے کے علاوہ، ان کا کام آزادی اور انصاف کی لڑائی میں عزم و استقلال کا مظہر ہے۔ اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے والے مزمل ٹھاکر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر بنیادی طور پر مسلم شناخت کا مسئلہ ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریک کے پیغام کو موثر انداز میں پہنچایا جائے۔ ایوب ٹھاکر کے آخری ٹیلی ویژن پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کشمیر کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے اگلی نسل کی پرورش میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا اور کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے جدوجہد آزادی کے تسلسل پر دوبارہ توجہ دی جائے اور حکمت عملی وضع کی جائے۔

وکٹوریہ شوفیلڈ نے اس بات پر زور دیا کہ تحریک کشمیر کی طاقت بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسے تسلیم کرنے اور سمجھنے میں مضمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھاکر نے اس طاقت میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو عالمگیر بنایا اور اسے بین الاقوامی برادری کے ضمیر میں سب سے آگے لایا۔ اسلام، پاکستان اور کشمیر کے مشن کے لئے ٹھاکر کی انتھک کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، غلام محمد صفی نے عالمی اسکالرز پر ان کے اثر و رسوخ کا ذکر کیا جنہوں نے ان کی وجہ سے کشمیر کا حقیقی نقطہ نظر پیش کرنا شروع کیا۔

ناصر قادری نے کہا کہ موجودہ چیلنجز مضبوط موقف کے متقاضی ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد سے تشبیہ دیتے ہوئے انہوں نے قیادت کی کوششوں میں فیصلہ کن نقطہ نظر اور مستقل مزاجی پر زور دیا۔ اسی طرح محمود ساغر نے محض بیان بازی سے بالاتر ہو کر مضبوط اور ٹھوس سفارتی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نظریہ کی تائید کرتے ہوئے عبدالرشید ترابی نے کہا کہ ٹھاکر جیسے رہنمائوں کی کوششوں اور مشن کو پیش کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔

مشن کو منطقی اور منصفانہ انجام تک پہنچانے کے لئے ہر سطح پر ایک ٹارگٹڈ نقطہ نظر کے ساتھ ایسا کیا جانا چاہئے۔ غلام احمد میر نے کہا کہ کشمیر کی تحریک کو بااثر حلقوں نے مایوس کیا ہے اور کشمیر اور فلسطین کی آواز کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو تسلیم کرنا چاہیے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد ان کے حق خودارادیت اور انسانی حقوق کے لیے ہے۔

غلام نبی فائی نے ٹھاکر کو ایک دور اندیش اور اصول پسند رہنما کے طور پر سراہا اور بین الاقوامی سطح پر تحریک کشمیر کی تنظیموں کے قیام میں ان کے اہم کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے تارکین وطن کو متحرک کرنے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے ٹھاکر کے عزم کی پاسداری کرنے پر زور دیا۔ اختتامی کلمات میں خالد رحمان نے عالمی ضمیر کی تشکیل میں دو اہم عوامل کی اہمیت پر روشنی ڈالی: سڑکوں پر مظاہرے اور بین الاقوامی شرکت کی سطح، بار بار ویٹو کے باوجود اقوام متحدہ میں فلسطین جیسی جدوجہد آزادی کی بڑھتی ہوئی حمایت کا ذکر کیا۔

انہوں نے عالمی گورننس کی سطح پر کوششوں کو تیز کرنے کے لئے ان عوامل کو سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پاکستان کے کردار کا ازسرنو جائزہ لینے پر زور دیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نئے سرے سے توجہ اور توانائی پر زور دیا۔