مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے بیرون ملک مقیم بھارتیوں کو انتقام کا نشانہ بنایاجارہا ہے، ہیومن رائٹس واچ

منگل 19 مارچ 2024 22:00

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 مارچ2024ء) ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولنے والے بھارتی نژاد غیر ملکی شہریوں کے ویزا/او سی آئی سہولیات منسوخ کی جا رہی ہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق تنظیم کے ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ قدم تنقید کے حوالے سے اس کے رویے کو ظاہر کرتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ بھارتی حکام بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولنے والے بھارتی نژاد غیر ملکی ناقدین کے ویزے منسوخ کر رہے ہیں ۔وزیر اعظم نریندر مودی اکثر بھارتی جمہوریت کا جشن منانے امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور دوسری جگہوں پر پارٹی کی حمایت کرنے والے تارکین وطن کی اجتماعی میٹنگوں میں شرکت کرتے ہیں جبکہ ان کی حکومت نے ان لوگوں کو نشانہ بنایا ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی شبیہ کو داغدار کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اوورسیز سٹیزن آف انڈیاکا درجہ بھارتی نژاد غیر ملکی شہریوں یا بھارتی شہریوں سے شادی کرنے والے غیر ملکیوں کو دیا جاتا ہے تاکہ انہیں بھارت میں رہنے کے حقوق مل سکیں اور ویزا سے استثنیٰ دیا جا سکے تاہم یہ شہریت کے حقوق کے برابر نہیں ہے۔ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق جن لوگوں کا اوسی آئی ویزا اسٹیٹس رد کر دیا گیا ہے، ان میں سے کئی بھارتی نژاد ماہرین تعلیم ، انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی ہیں جو بی جے پی کے ہندو اکثریتی نظریے کی کھلے عام تنقید کرتے رہے ہیں۔

کچھ لوگوں نے اظہار رائے کی آزادی اور معاشی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے آئینی بنیادوں پر بھارتی عدالتوں میں اس کارروائی کو چیلنج کیا ہے ۔ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہاکہ بی جے پی کی توہین آمیز اور امتیازی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے تارکین وطن بھارتیوں کے خلاف بھارتی حکومت کی کارروائی تنقید اور بات چیت کے بارے میں اس کے رویے کو ظاہر کرتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکام بھارتی کارکنوں اور ماہرین تعلیم سے لے کر بیرون ملک مقیم بھارتی نژاد غیر ملکی شہریوں تک ہر ایک کو سیاسی جبر کانشانہ بنانے پرآمادہ ہیں۔بھارتی نژاد سویڈش ماہر تعلیم اشوک سوین کا 2022 میں اوسی آئی اسٹیٹس منسوخ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی جس میں عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے اپنی کارروائی کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔

اس کے بعد جولائی 2023میں سویڈن میں بھارتی قونصل خانے نے سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے سوین کا او سی آئی اسٹیٹس منسوخ کرنے کاایک نیا آرڈر بھیجا ۔جب سوین نے ستمبر 2023 میں اس حکم کو چیلنج کیا تو حکام نے دعویٰ کیا کہ انہیں سکیورٹی ایجنسیوں سے خفیہ رپورٹ موصول ہوئی تھی۔ فروری 2024میں سوین کاایکس اکائونٹ بھارت میں بلاک کر دیا گیا اور بعد میں ہیک کر لیا گیا تھا ۔

سوائن نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایاکہ میرے معاملے کو بھارت سے باہر دیگر ماہرین تعلیم کو ڈرانے یا حکومت پر تنقید نہ کرنے سے روکنے کے لیے ایک مثال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ بھارتی حکام نے او سی آئی کارڈ ہولڈر ماہرین تعلیم کو بھی ملک میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ رواں سال 23فروری کو حکام نے لندن کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کی برطانوی پروفیسر نتاشا کول کو بھارت میں داخل ہونے سے روک دیا۔

کول کا کہنا تھا کہ امیگریشن حکام نے انہیں اس کارروائی کی وجہ نہیں بتائی لیکن وزارت خارجہ کے ترجمان نے بعد میں اس معاملے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے ملک میں غیر ملکی شہریوں کا داخلہ ایک خودمختار فیصلہ ہے۔نامعلوم سرکاری عہدیداروں نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ کول نے بھارت کے خلاف احتجاج کیا تھا ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کول بی جے پی اور اس سے منسلک گروپوں کی ناقد رہی ہیں اور 2019میں انہوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امورخارجہ کے سامنے بھی اپنا موقف پیش کیاتھا۔

کول نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ انہیں بھارت اور بیرون ملک بی جے پی کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے ریپ اور جان سے مارنے کی متعدد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے جہادی اور دہشت گرد بھی کہا گیا۔ بھارتی حکام نے جنوری 2024تک بھارت میں کام کرنے والے او سی آئی کا درجہ رکھنے والے تقریبا 25غیر ملکی صحافیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا۔

بائیس سال تک بھارت میں رہنے والی فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگنیک نے کہا کہ جنوری میں وزارت داخلہ کی جانب سے انہیں شو کاز نوٹس بھیجے جانے کے بعد انہوں نے ملک چھوڑ دیا کیونکہ اس کے پیچھے حکومت کا ارادہ ان کا او سی آئی کارڈ منسوخ کرنا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک صحافی کے طور پر کام کرنے کے لیے ان کے پاس پرمٹ نہیں ہے اور ان کی خبروں نے بھارت کے بارے میں متعصبانہ اورمنفی تاثر پیدا کیا ہے۔

ایک بھارتی کمپنی کی مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے کے فورا بعد ایک امریکی صحافی کا او سی آئی اسٹیٹس 2023میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ امریکی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ان پر کوئی خاص الزام نہیں لگایا گیا تھا اور ان کی بار بار درخواست کے باوجود اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

امریکی سکھ صحافی انگد سنگھ کو بھی حکام نے سال 2022میں ملک بدر کر دیا تھا۔انگد سنگھ کی طرف سے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے مقدمہ دائر کرنے کے بعد حکومت نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے ملک کے ترمیم شدہ شہریت قانون کے خلاف 2019-20کے مظاہروں کے بارے میں ایک ڈاکیومنٹری میں بھارت کے سیکولر کردار کے بارے میں انتہائی منفی نظریہ پیش کیا ہے۔