ججز خط پر ازخود نوٹس کی سماعت پریس کانفرنس لگ رہی تھی

اٹارنی جنرل کو کھلی چھوٹ دی گئی، حیران کن ہے کہ جس ایگزیکٹیو پر الزامات ہیں اس کے نمائندے کو اتنا وقت کیوں دیا گیا؟ سپریم کورٹ کی سماعت پر معروف قانون دان کا ردعمل

muhammad ali محمد علی بدھ 3 اپریل 2024 22:40

ججز خط پر ازخود نوٹس کی سماعت پریس کانفرنس لگ رہی تھی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 اپریل2024ء) معروف قانون دان نے ججز خط کے معاملے پر سپریم کورٹ از خود نوٹس کی سماعت پر سوال اٹھا دیا۔ اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معروف اور سینئر قانون دان معیز جعفری نے کہا کہ ججز خط پر ازخود نوٹس کی سماعت پریس کانفرنس لگ رہی تھی، اٹارنی جنرل کو کھلی چھوٹ دی گئی، حیران کن ہے کہ جس ایگزیکٹیو پر الزامات ہیں اس کے نمائندے کو اتنا وقت کیوں دیا گیا؟ سپریم کورٹ کی سماعت سوا ایک گھنٹہ جاری رہی، جس میں سے ایک گھںٹہ تو صرف اٹارنی جنرل کو بولنے کیلئے دیا گیا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا۔ بدھ کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ باقی تمام ججز دوسری رجسٹریوں میں سماعت کر رہے ہیں، آج کا یہ حکم سمجھیں کہ عدلیہ کے کام میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرینگے، باقی ججز عید کے بعد واپس آ جائیں گے اور عید کے بعد میں ایک ہفتہ لاہور جبکہ دوسرا ہفتہ کراچی میں ہوں، اسلام آباد میں واپسی 29اپریل کو ہوگی اس کے بعد سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ تاریخ 30 اپریل ہوجائے یہ جائزہ لیکر طے کرینگے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس میں الزام ایگزیکٹو پر ہے، اگر الزام انتظامیہ پر ہے تو پھر انتظامیہ اس کی انکوائری کیسے کر سکتی ہے؟ ہم سب کے سامنے ہے کہ مداخلت کے حوالے سے شکایات آ رہی ہیں، کیس یہ ہے کہ ان شکایات کا سدباب کرنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ہمیں ایک بہترین موقع سمجھنا چاہیے، اب ان مداخلت کی شکایات کو ختم کرنے کا موقع ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی 29 اپریل کے لیے سماعت ملتوی کر دیتے ہیں، عید کے بعد اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے۔ سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے تجاویز مانگ لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپس میں مشاورت کے بعد فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کریں گے، آج کا ہمارا حکم یہ سمجھا جائے کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا، عید تک کچھ ججز لاہور اور کراچی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا، مگر اس معاملے پر فیصلہ دینا بہت اہم ہے، ہم نے ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو بااختیار بنانا ہے، ہم نے اس بارے میں طریقہ کار طے کرنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوگی کچھ نہیں ہو سکتا، یہ کیس کو ایک موقع سمجھنا چاہیے، بعد میں آنے والے یہ کہہ سکیں کہ وہ آزاد ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایم پی او کے ذریعے عدالتی فیصلوں کو غیر موثر کیا جاتا رہا۔ ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل کے لیے بھی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ وفاقی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی تھی۔ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کی سربراہی میں معذرت اختیار کر لی تھی۔