غزہ کی جنگ امریکی اسرائیلی تعلقات کا امتحان بھی

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 4 اپریل 2024 18:20

غزہ کی جنگ امریکی اسرائیلی تعلقات کا امتحان بھی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اپریل 2024ء) امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی اہمیت طویل عرصے سے واشنگٹن میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن سیاستدانوں کے لیے ایک اہم پالیسی نکتہ رہا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران امریکہ کی ان دونوں سیاسی جماعتوں میں طاقت کا تبادلہ ہوتا رہا ہے تاہم ایک چیز اٹل تھی اور اب بھی ہے، ''اسرائیل کے ساتھ امریکی وابستگی۔

‘‘

دونوں سیاسی پارٹیوں کے رہنما اس یقین کامل پر جمے رہے ہیں کہ اسرائیل کا امریکہ سے زیادہ قریبی ساتھی یا اتحادی کوئی نہیں اور اسرائیل کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق 1948ء کے بعد سے اسرائیل کو امریکہ سے تقریباً 300 بلین ڈالر (280 بلین یورو) کی امداد ملی ہے، اس میں سے زیادہ تر فوجی مقاصد کے لیے تھی۔

(جاری ہے)

امریکہ سے سب سے زیادہ امداد حاصل کرنے والا دوسرا ملک مصر ہے لیکن اسرائیل کو ملنے والی امریکی رقوم مصر کو دی جانے والی رقوم سے تقریباً دو گنا زیادہ ہیں جبکہ مصر کی آبادی 111 ملین اور اسرائیل کی 9.5 ملین ہے۔

اسرائیل کے قومی سلامتی کے ایک سابق نائب مشیر، چک فرائلش جو اب کولمبیا، نیو یارک اور تل ابیب کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں، نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک ناقابل یقین رشتہ ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔

‘‘ فرائلش کا مزید کہنا تھا، ''مشترکہ اقدار، اسٹریٹیجک مفادات اور ایک مضبوط لابی جو اسرائیل کو واشنگٹن کی مہربانیوں کے سائے میں رکھتی ہے اور یہی ان دونوں کے تعلقات کا ستون ہے۔‘‘ مثال کے طور پر امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC) امریکی دارالحکومت کے سب سے زیادہ مؤثر لابی گروپوں میں سے ایک ہے، جو سیاسی حالات و واقعات سے قطع نظر مضبوط باہمی تعلقات کی وکالت کرتی ہے۔

'ایک اسٹریٹیجک اثاثہ‘

یورپ میں یہودیوں کو ہولوکاسٹ سے بچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر امریکہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد مئی 1948ء میں صیہونی تحریک کے رہنماؤں نے آزادی کا اعلان کیا تو اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے میں نہایت تیزی سے کام لیا گیا۔

تب سے اسرائیل نے خود کو امریکہ کی طرح کی لبرل ڈیموکر یسی کی سوچ کی حامل قوت کے طور پر پیش کیا، وہ بھی ایک ایسے خطے میں جو ہمیشہ ان کے لیے دوستانہ نہیں ہوتا اور اس نے یہاں امریکی مفادات کو فروغ دینا شروع کر دیا۔

چک فرائلش کہتے ہیں، ''ماضی میں اسرائیل کو خالصتاً ایک ذمہ داری سمجھا جاتا تھا کیونکہ سرد جنگ کے دوران اسرائیل کے سوویت یونین کی طرف جھکاؤ رکھنے والے عرب پڑوسیوں کے ساتھ علاقائی تنازعے نے ایٹمی سپر پاورز کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ 90 کی دہائی سے پینٹاگون کی طرف سے اسرائیل کو ایک اسٹریٹیجک اثاثے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

‘‘

سوویت یونین کی تقسیم کے بعد اسرائیل امریکہ کے لیے ایران جیسے مخالفین اور اس کی غیر ریاستی پراکسیوں کو روکنے کا ایک ذریعہ بن گیا۔ فرائلش کے بقول، ''اس عزم نے امریکہ اور اسرائیل کی تاریخ میں اس انتہائی قریبی تعلق کو جنم دیا۔‘‘

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں امریکہ نے اسرائیل کو ہتھیار بھیجے، اپنے جنگی بحری بیڑوں کو خطے میں بھیج دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر دیا۔

یہاں تک کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی دفاع کے مفاد میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ اختلافات کو ایک طرف رکھا اور کہا کہ وہ غزہ کی جنگ کے اسرائیلی نقطہ نظر کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔‘‘

غزہ میں ہلاکتوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد

سات اکتوبر کے بعد سے یعنی تقریباً چھ ماہ کے دوران اسرائیلی فوجی مہم کے دوران غزہ میں 33 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس پر عالمی مذمت دیکھنے میں آرہی ہے۔ اب بائیڈن انتظامیہ کے مطابق ''اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی عوام کو ایک دوسرے سے نہیں ملایا جانا چاہیے۔‘‘ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے حال ہی میں امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''اگر نیتن یاہو بہت جلد اپنا نقطہ نظر تبدیل نہیں کرتے اور اگر بہت جلد نئی اسرائیلی حکومت نہیں بنتی، تو اس کے دیرپا اثرات ہوں گے۔

‘‘

فرائلش نے امریکی لہجے میں تبدیلی کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا، ''ایسا تو آپ کسی بنانا ریپبلک کے بارے میں کہتے ہیں۔ امریکی اسرائیلی تعلقات سے جڑے امور کے ماہر کچھ مبصرین کے لیے نئی حکومت کے بننے کے لیے جلدی کا لفظ کافی نہیں۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں اسرائیلی امور کے ماہر اور سیاسیات کے پروفیسر ایان لُسٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ایک اذیت ناک حد تک سست عمل رہا ہے، جس کے سبب امریکہ سبز روشنی سے پیلی روشنی اور اب نارنجی روشنی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

‘‘

'اورنج لائٹ‘ سے پروفیسر لُسٹک کا اشارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے دوران حالیہ امریکی عدم شرکت کی طرف ہے۔ اس قرارداد میں عارضی جنگ بندی کے مطالبے کی منظور ی دی گئی تھی۔ اس پر احتجاج کا اظہار کرتے ہوئے نیتن یاہو نے اسرائیلی حکام کے امریکہ کے آئندہ دورے کی منسوخی کا اعلان کر دیا تھا۔

دوستوں کے مابین تناؤ

گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کا جھکاؤ مزید دائیں طرف بڑھ رہا ہے۔

اس ریاست میں مذہبی انتہا پسندوں نے پہلے سے زیادہ سیاسی طاقت حاصل کر لی ہے اور یہ بڑی حد تک نیتن یاہو کی زیرقیادت مختلف حکومتی ادوار میں ہوا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر قبضے اور غزہ پر مکمل کنٹرول کو معمول کی بات بنانے کی اسرائیلی کوششوں نے اسرائیل کو خاص طور پر امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت سے متصادم کر دیا ہے۔ ایران، مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں اور فلسطینی ریاست جیسے اہم مسائل کے سلسلے میں واشنگٹن اور تل ابیب کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔

غزہ میں ہزارہا شہری ہلاکتوں پر امریکی انتظامیہ کی طرف سے تنقید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی موقف اب بہت واضح ہے۔ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے وسیع آزادی، مواقع اور جمہوریت کا خواہش مند ہے۔ تاہم اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں پر قبضے میں توسیع بائیڈن انظامیہ کے وژن کو کمزور کر رہی ہے۔

ک م/ ش ر، م م (ولیم گُلوکروفٹ)

https://www.dw.com/a-68728712