پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں پانی کے انتظام سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، ماحولیاتی ماہرین

جمعہ 5 اپریل 2024 22:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اپریل2024ء) ماحولیاتی ماہرین نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں پانی کے انتظام سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ واٹرشیڈ مینجمنٹ ، پانی کی حفاظت، تحقیق اور ترقی سمیت منصوبہ بندی اور بہتری کے لیے شواہد پر مبنی فیصلے ناگزیر ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں ماحولیاتی تبدیلی کے پانی کے نظام پراثرات سے متعلق مشاورتی اجلاس میں کیا۔ اجلاس میں ماحولیاتی ماہرین نے کمیونٹی کی جانب سے منتظم شدہ پانی کے انتظام کے ایسے ماڈل پر تبادلہ خیال کیا جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشاورتی اجلاس کا انعقاد انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی اور نیشنل ڈیزاسٹر رسک منیجمنٹ فنڈ کی جانب سے کیا گیا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو جاری بیان کے مطابق مشاورت کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پانی کی گورننس کے انتظام اور پالیسی اصلاحات کو موثر بنانے کے لیے ماہرین کی رائے اور تجربے سے فائدہ اٹھانا تھا تاکہ شدید موسمی حالات بشمول سیلاب اور خشک سالی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹا جاسکے۔ شرکاءمیں سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز، ممبر پلاننگ کمیشن، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ، زیزاک، یو ایس ایڈ کا ہائر ایکوکیشن سسٹم سٹرینتھننگ ایکٹیویٹی، نیچرل ریسورسز ڈویژن، پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ دیگر ماہرین شامل تھے۔

کنٹری ڈائریکٹر انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) شبنم بلوچ اور سی ای او نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ (این ڈی آر ایم ایف) بلال انور نے پروجیکٹ کے ڈیزائن اور پالیسی فارمولیشنز میں مقامی کمیونٹیز کی آواز اور ان کی رائے کو شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے فعال کردار، پانی کے حقوق سے متعلق آگاہی کو یقینی بنانے اور پروجیکٹ ڈیزائن کے لیے مقامی حکمت اور معلومات سے مستفید ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔

ماہرین نے پانی کے انتظام کو فروغ دینے کے لیے مہارتوں اور تکنیکی افراد کی کمی اور باخبر فیصلہ سازی کے لیے مناسب ڈیٹا کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے مستقبل کی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کو موثر بنانے کے لیے ماضی کے تجربات سے سیکھنے اور انہیں دستاویزی شکل دینے کی اہمیت پر زور دیا اور ساتھ ہی پہاڑی علاقوں میں زرعی شعبوں کے موثر کردار کو یقینی بنانے کے لیے نجی شعبے کی مدد کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔\932