پاکستان میں بڑھتے سائبر کرائمز، زیادہ شرح مالیاتی جرائم کی

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 6 اپریل 2024 17:00

پاکستان میں بڑھتے سائبر کرائمز، زیادہ شرح مالیاتی جرائم کی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2024ء) آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان کے عام شہریوں میں انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہوتے جانے کے ساتھ ساتھ صارفین کی ڈیجیٹل شناخت کی چوری اور آن لائن جرائم میں بھی ا‌ضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو عوام کے لیے آئے دن کی پریشانیوں کا سبب بن رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے صارفین کے بینک اکاؤنٹس، کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات اور آن لائن پاس ورڈز چوری کرنے والے ہیکرز بالعموم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایسے ماہر ہوتے ہیں، جن کے لیے قومی اور بین الاقوامی سرحدوں میں تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی۔

جرمن پولیس نے دو بلین یورو مالیت کے بِٹ کوائن قبضے میں لے لیے

مالی نوعیت کے سائبر کرائمز کے مرتکب مجرم اکثر ایسا کرتے ہیں کہ وہ کسی فرضی کال سینٹر یا بینک سے گاہکوں کو کال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

یوں متعلقہ صارف کی آن لائن دستیاب معلومات میں سے چند ایک بتا کر اس سے مزید اہم معلومات لی جاتی ہیں اور پھر اس کے اکاؤنٹ سے پیسے نکال لیے جاتے ہیں۔

اس طریقہ کار کے تحت مجرموں کو صارف کی غلطی سے ظاہر کی گئی رضا مندی سے اس کے اکاؤنٹ تک اس امکان کے تحت رسائی حاصل ہو جاتی ہے، جسے اصطلاحاﹰ opt-in access کہا جاتا ہے۔

ایک اور خطرناک طریقہ انٹرنیٹ پر ایسے تکنیکی امکانات کا استعمال بھی ہے، جس کے ذریعے کسی بھی فرد کی آواز کا نمونہ لے کر مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس کی آواز میں کوئی بھی جعلی آڈیو یا ویڈیو کلپ بنا لیا جاتا ہے، جسے پھر بلیک میلنگ اور تاوان کی وصولی کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔

پاکستان میں سائبر حملے

بین الاقوامی سطح پر سائبر سکیورٹی اور ڈیجیٹل پرائیویسی کے شعبے میں خدمات مہیا کرنے والی کمپنی ’کاسپرسکی‘ (Kaspersky) کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 24.24 فیصد آن لائن صارفین سائبر کرائمز کا شکار ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ان کے ڈیٹا کی چوری کے شدید خطرے کا سامنا رہتا ہے۔

مالیاتی اور سائبر جرائم: دنیا بھر کی پولیس پریشان، انٹرپول

اس کمپنی کے مطابق اس نے 2023ء میں پاکستان میں 16 ملین سے زائد سائبر حملے روکے۔

یہ تعداد 2022ء میں پاکستان میں ایسے حملوں کی تعداد سے 17 فیصد زیادہ تھی۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ برس مالیاتی شعبے میں مجرمانہ نوعیت کا نقصان دہ سافٹ ویئر (malware) استعمال کرتے ہوئے جو سائبر حملے کیے گئے، ان کی تعداد میں 2022ء کے مقابلے میں 59 فیصد تک کا بہت تشویش ناک اضافہ دیکھا گیا۔

آن لائن ہیکنگ سے متاثرہ راولپنڈی کے رہائشی کاشف فرحان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں ان کے بینک سے میسج آیا تھا کہ ان کے اکاؤنٹ سے کسی امریکی کمپنی کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

پھر کچھ ہی دیر بعد ایک اور میسج آیا کہ دو لاکھ روپے منتقل ہو بھی چکے تھے۔

مشرق وسطیٰ، سائبرقوانین کا ناقدین کے خلاف استعمال

کاشف فرحان کے بقول، ''اس سے پہلے کہ میرے بینک سے مزید کوئی رقم ٹرانسفر ہوتی، میں نے اپنا کارڈ فوراﹰ بلاک کروا دیا۔ لیکن ان دو لاکھ روپوں کے لیے جب میں نے اپنے بینک سے رابطہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ یہ امریکہ سے کسی ہیکر کا کام ہے، جس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

‘‘

خاتون بینکار کا مشورہ

ڈی ڈبلیو نے جب پاکستان میں بینکنگ کے شعبے میں سائبر کرائمز کے موضوع پر گفتگو کے لیے نیشنل بینک آف پاکستان کی نائب صدر امِ فروا سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ ان کے بینک کو بھی آئے روز بینک کارڈ خراب ہو جانے اور کیش لینے کی کوشش کے دوران اے ٹی ایم مشین میں پھنس جانے جیسی کئی شکایات تو موصول ہوتی ہیں، جن کا فوری سدباب کر دیا جاتا ہے، تاہم کارڈ ہیکنگ کی شکایات بہت کم موصول ہوتی ہیں۔


انہوں نے بتایا، ''ہیکنگ کی شکایت کرنے والے صارف کو فوراﹰ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے رابطے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ ہیکرز کے خلاف بلاتاخیر کاروائی شروع کی جا سکے۔ لیکن جو رقم ایک بار چلی جائے، اس کی واپسی اکثر ممکن نہیں ہوتی۔ یا پھر صرف اس حد تک جتنی کہ کسی صارف نے انشورنس کروا رکھی ہو۔‘‘

فراڈ سے متاثرہ خاتون خانہ

راولپنڈی کی رہنے والی تیس سالہ نسیم بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں ان کے موبائل فون پر میسج آیا تھا کہ ان کا دو لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے۔

لہٰذا فلاں نمبر پر فوراﹰ 200 روپے بجھوا دیں تاکہ مزید تفصیلات بتائی جا سکیں۔ نسیم بی بی کے بقول، انہوں نے خوشی خوشی دو سو روپے بھجوا دیے تو پھر اگلا پیغام یہ آیا کہ اپنے گھر کا پورا پتہ بتا دیں تاکہ انعامی رقم پہنچائی جا سکے۔

سائبر کرائم، ایف آئی اے کو ایک لاکھ شکایت موصول

اس دوسرے پیغام کے بعد نسیم بی بی نے اپنے شوہر کو خوشخبری سنانے کے لیے کال کی، جو دبئی میں ایک ریستوراں میں کام کرتے ہیں۔

''انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ گھر کا پتہ کسی کو نہ بتانا۔ ان کے پاکستان ہی میں ایک دوست کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ جو انعامی رقم دینے آئے تھے، وہ گھر لوٹ کر چلتے بنے۔‘‘

اس گھریلو خاتون نے بتایا کہ اپنے شوہر کے ساتھ گفتگو کے بعد انہوں نے 'انعام کی رقم لانے والوں کا فون نمبر ہی بلاک‘ کر دیا تھا، ''میں آج بھی جب اس بارے میں سوچتی ہوں، تو ڈر جاتی ہوں کہ نجانے کیا کچھ ہو جاتا؟‘‘

مالیاتی فراڈ سب سے زیادہ

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے اسلام آباد میں تعینات ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز خان کے مطابق آج کل ملک میں جو فراڈ سب سے زیادہ ہو رہے ہے، وہ آن لائن مالیاتی فراڈ ہیں۔

ان کے بقول ایسے جرائم میں آن لائن بزنس میں دھوکہ دہی، جعلی بینک نمائندوں کی کالیں، مجرموں کی طرف سے خود کو پولیس اہلکار ظاہر کرتے ہوئے کیے جانے والے ڈیجیٹل رابطے، صارفین کے بینک اکاؤنٹس تک opt-in accessکے ذریعے غیر قانونی رسائی اور پرائیویٹ ڈیجیٹل ڈیٹا کی چوری تک سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے ایاز خان کے ساتھ بات چیت میں ان سے پوچھا کہ جب سائبر کرائمز یا ہیکنگ کے شکار عام شہری ایف آئی اے کے پاس اپنی شکایات لے کر آتے ہیں، تو یہ وفاقی ادارہ ان کی کس حد تک مدد کر پاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''جونہی ہمیں کسی سائبر کرائم کی شکایت ملتی ہے، ہم چھان بین شروع کر دیتے ہیں۔

ہر کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہم اکثر ایک سے دو ماہ تک کے عرصے میں ہیکرز کو شناخت کر کے گرفتار کر لیتے ہیں، جس کے بعد قانونی کارروائی کی تکمیل پر انہیں سزائیں بھی سنائی جاتی ہیں۔‘‘

ڈارک نیٹ پر دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جرائم پیشہ پلیٹ فارم بند

ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ سماجی سطح پر اصل مسئلہ عوامی آگہی کے فقدان کا ہے۔

ان کے الفاظ میں، ”اسی بہتر آگہی کے لیے ایک مہم کے طور پر ہم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ساتھ مل کر موبائل فون صارفین کو یہ مستقل ہدایات بھی دیتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی حساس معلومات، جیسے پن کوڈ یا پاس ورڈ، نہ کسی دوسرے فرد کو دیں اور نہ کسی انجان ویب سائٹ پر۔ اس لیے کہ یہ جیسے آپ کے گھر کی چابی ہے، جو کبھی کسی دوسرے کو نہیں دی جانا چاہیے۔

‘‘

آن لائن سکیورٹی کے لیے صارفین کی اپنی ذمے داریاں

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ماہر لیلیٰ خالد نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے منفی پہلو بھی ہیں اور مثبت بھی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں آج کل سب سے زیادہ رجحان ڈیپ فیک کا ہے، جس میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی اور اے آئی کے استعمال سے جعلی تصاویر، آڈیوز اور ویڈیوز تیار کی جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا، ''ڈیپ فیک ویڈیوز بنانے کے لیے عموماﹰ ایک مخصوص سافت ویئر استعمال کیا جاتا ہے، جس سے اصل اور نقل میں فرق انتہائی کم رہ جاتا ہے۔ یوں آسانی سے کروڑوں کے فراڈ کیے جا رہے ہیں اور بلیک میلنگ بھی۔ اس کے علاوہ ہیکرز اپنے جرائم کے لیے سکیمنگ، فشنگ اور کئی دیگر طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔‘‘

آپ انٹرنیٹ جرائم سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

تو پھر بہتر آن لائن سکیورٹی کو یقینی کیسے بنایا جائے؟ لیلیٰ خالد کے بقول ہر صارف کو اپنی تمام ڈیجیٹل ایپس تک رسائی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹس کو ہر بار اپنی شناخت کی لازمی دوہری تصدیق کے طریقہ کار یا 'ٹو ایف اے‘ کے ذریعے محفوظ بنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ''ایسا آسانی سے کسی بھی ڈیجیٹل ڈیوائس کی سیٹنگز میں جا کر کیا جا سکتا ہے۔ مکمل آن لائن سکیورٹی اب بہت مشکل ہو گئی ہے۔ لیکن دوہری احتیاط کے ساتھ ہیکنگ اور ڈیٹا چوری سے کافی حد تک بچنا اب بھی ممکن ہے۔ دنیا کا کوئی بھی سافٹ ویئر آپ کے ڈیٹا کی اتنی حفاظت نہیں کر سکتا، جتنی کہ آپ خود۔‘‘