کراچی میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے وین ڈرائیور نوجوان جاں بحق

مقتول لیاقت آباد کا رہائشی ،بیوٹی پارلر کی لڑکیوں کو پک اینڈ ڈراپ سروس دینے کا کام کرتا تھا

پیر 8 اپریل 2024 21:22

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اپریل2024ء) ڈاکوؤں کے ہاتھوں یرغمال شہر قائد میں ایک اور نوجوان واردات میں مزاحمت کے دوران زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔گلزار ہجری اسکیم 33 کے علاقے میں ڈاکووں کی فائرنگ سے لیاقت آباد کا رہائشی نوجوان جاں بحق ہوگیا ، مقتول بیوٹی پارلر کی لڑکیوں کو پک اینڈ ڈراپ سروس دینے کا کام کرتا تھا ۔پولیس کے مطابق سکندر گوٹھ میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب تقریبا ساڑھے 3 بجے فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔

مقتول کی شناخت 33 سالہ شجاعت علی ولد نیاز علی کے نام سے کی گئی ، جو لیاقت آباد 9 نمبر مکان نمبر 105 کا رہائشی تھا ۔مقتول کے بھائی محمد علی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شجاعت علی کی 4 سال قبل شادی ہوئی تھی اور اس کی کوئی اولاد نہیں تھی جب کہ وہ 4 بھائیوں اور 2 بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا۔

(جاری ہے)

ان کا خاندانی کام اسکول وین چلانے کا ہے ۔ مقتول شجاعت کے پاس ہائی جیٹ گاڑی تھی جسے وہ صبح کے اوقات میں اسکول کی پک اینڈ ڈراپ کا کام کرتا تھا جب کہ وہ گلشن اقبال کے مختلف بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی لڑکیوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کرتا تھا۔

مقتول نے شہر کے حالات کے پیش نظر ایک سال قبل اسلحہ لائسنس بنوایا تھا اور رات کے وقت جب لڑکیوں کے بیوٹی پارلر سے ان کے گھر ڈراپ کرنے نکلتا تھا تو پستول اپنے پاس رکھتا تھا ۔ واقعے کے وقت بھی اس کے پاس پستول موجود تھا ۔ مقتول اسکیم 33 سکندر گوٹھ کی رہائشی ایک لڑکی کو چھوڑنے اس کے گھر جا رہا تھا کہ اس نے موٹرسائیکل سوار مشکوک افراد کو تعاقب کرتے دیکھا تو گاڑی بھگانے کی کوشش کی تاہم مسلح افراد نے اچانک سامنے آکر گاڑی رکوا دی۔

شجاعت جیسے ہی گاڑی سے باہر آیا تو ملزمان نے اسے سینے پر گولی ماری اور فرار ہوگئے ۔ مقتول کے بھائی اور ایک رشتے دار کا کہنا تھا کہ مقتول کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی کسی کا کوئی رقم کا تنازع رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ڈکیتی کا ہے۔ ملزمان نے واردات کی نیت سے روکا ہوگا تاہم شجاعت کے مزاحمت کرنے پر ڈاکو فائرنگ کر کے فرار ہوگئے اور جاتے ہوئے موبائل فون سمیت کوئی چیز اپنے ساتھ نہیں لے کر گئے ۔پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ ڈکیتی مزاحمت کا بھی ہوسکتا ہے تاہم حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ تمام ممکنہ پہلوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔