خبردار! گرمی کی لہر،لاکھوںایشیائی بچوں کی زندگیوں کو خطرہ

مشرقی ایشیا اور پیسیفک میں گرمی کی پے درپے زبردست لہر سے لاکھوں بچے خطرے میں پڑ سکتے ہیں،اقدامات ضروری ہیں سال 2024 اب تک کا گرم سال ثابت ہورہا ہے، جسکی وجہ ماحولیاتی شدت اور گرین ہاؤس گیس کی بڑھتی ہوئی تابکاری ہے مشرقی ایشیا اور پیسیفک میں رہنے والے 24 کروڑ 30 لاکھ سے زائد بچے مستقبل میں گرمی سے متاثر ہوسکتے ہیں،اقوا م متحدہ

جمعہ 12 اپریل 2024 10:25

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اپریل2024ء) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مشرقی ایشیا اور پیسیفک میں گرمی کی پے درپے زبردست لہر سے لاکھوں بچے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور انہیں اور دیگر کمزور طبقوں کو بڑھتے درجہ حرارت سے بچانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ گرمی کی صورتحال کو مانیٹر کرنے والے عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ سال 2024 اب تک کا سب سے گرم سال ثابت ہونے جارہا ہے، جس کی وجہ ماحولیاتی شدت اور گرین ہاؤس گیس کی بڑھتی ہوئی تابکاری ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے (یونیسیف) کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق مشرقی ایشیا اور پیسیفک میں رہنے والے 24 کروڑ 30 لاکھ سے زائد بچے مستقبل میں گرمی کی لہر سے متاثر ہوسکتے ہیں، جس سے انہیں مختلف بیماریوں اور موت کا خطرہ ہے۔

(جاری ہے)

عالمی ایجنسی نے مزید کہا کہ خطے کے بہت سے ممالک پہلے سے سخت گرمی کا سامنا کررہے ہیں اور درجہ حرارت 40 ڈگری سے زیادہ اور تاریخی سطحوں پر جارہا ہے، آنے والے ہفتوں میں اس رجحان میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔

اس غیر معمولی صورتحال میں فلپائن کے کچھ اسکولوں نے فزیکل کلاسز معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، اعلان ادارہ موسمیات کے انتباہ کے بعد کیا گیا جس میں بتایا تھا گیا کہ درجہ حرارت 42 یا 43 سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔اس سے قبل تھائی لینڈ کے ایک صوبے میں 43.5 درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، جو کہ تاریخی سطح 44.6 سینٹی گریڈ سے کچھ ہی دور تھا، تھائی وزارت صحت کے مطابق گرمی سے متعلق بیماریوں سے ہر سال 40 کے قریب لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اسی طرح تھائی لینڈ کے پڑوس میں واقع ویت نام میں بھی غیر معمولی 38 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔یونیسف نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ بچے اپنے جسم کا درجہ حرارت ریگولیٹ نہیں کرپاتے لہذا وہ زیادہ بڑے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔یونیسیف کے ریجنل آفس برائے ایسٹ ایشیا اور پیسیفک کی ڈائریکٹر ڈیبرا کومنی کے مطابق زیادہ گرمی بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

ڈیبرا کومنی نے مزید بتایا کہ اس قدر شدید گرمی جسم کو ٹھنڈا رکھنے والے قدرتی نظام کو کام کرنے نہیں دیتی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آنے والی گرمیوں اور دیگر ماحولیتی تبدیلیوں میں خبردار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں اور دیگر کمزور طبقوں کو بچایا جاسکے۔اقوام متحدہ کا ماننا ہے کہ 2050 تک 2 ارب بچوں کو گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔