ایران، اسرائیل تناؤ اور پاکستان کی ممکنہ حکمت عملی

DW ڈی ڈبلیو اتوار 14 اپریل 2024 20:20

ایران، اسرائیل تناؤ اور پاکستان کی ممکنہ حکمت عملی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2024ء) چھ ماہ سے جاری غزہ جنگ، اسرائیلی اقدامات اور مشرق وسطیٰ میں اُس کی جاری کارروائیوں سے اس کے اپنے دیرینہ اتحادی امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ یکم اپریل کو شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی فضائی حملہ اور ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینیئر کمانڈر سمیت سات ایرانی فوجی افسران کی ہلاکت کے بعد اس بات کے قوی امکانات تھے کہ تہران کی طرف سے بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی۔

اس واقعے کے دو ہفتے بعد 13 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں سے حملہ کیا۔ اس کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر اس بارے میں گہری تشویش پائی جا رہی ہے کہ اسرائیل کا اگلا اقدام کیا ہوگا اُس کے اثرات دیگر خطوں کے ممالک پر کیسے مرتب ہوں گے؟

جنوبی ایشیا کی جوہری طاقت، ایران کا ہمسایہ ملک اور گوناگوں اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار پاکستان اس نئی صورتحال سے کیسے نمٹے، اسلام آباد کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کی پروفیسر، بین الاقوامی تعلقات کی ماہر اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی خطرناک ہوتی صورتحال میں پاکستان بہت محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے: ''پاکستان وہی پوزیشن رکھے گا جو عام طور سے نیوٹرل اسٹیٹس رکھنے کی کوشش کرتی ہیں یعنی کہ اسرائیل اور ایران دونوں سے کہے گا کہ دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔

(جاری ہے)

‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسلام آباد سفارتی طور پر کھُل کر ایران کی حمایت کرے گا؟ انہوں نے کہا، ''اس کے امکانات نہیں ہیں۔ پاکستان کا رد عمل اُسی طرح کا ہوگا جیسا کہ زیادہ تر مڈل ایسٹرن ریاستوں کا ہے، اور مشرق وسطیٰ کی یہ ریاستیں خود کو اس معاملے سے دور رکھنے کی کوشش کریں گی نہ تو ایران اور نہ ہی اسرائیل کو سپورٹ کریں گی بلکہ یہ فریقین سے یہی کہیں گی کہ وہ بہتر طریقے سے اور بغیر کسی مزید خرابی کے معاملات کو نمٹائیں۔

‘‘

ڈاکٹر تبسم کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ پاکستان اتنا آگے جائے گا کہ وہ ایران کی کسی قسم کی ''ملٹری سپورٹ‘‘ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان میں رائے عامہ کی طرف سے حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی اہم بیان دے۔ ممکن ہے کہ جس وقت سکیورٹی کونسل میں یا جنرل اسمبلی میں کوئی بحث ہو تو اُس میں پاکستان کھل کے اسرائیل کی مخالفت کرے۔

جیسا کہ وہ پہلے سے کر رہا ہے۔‘‘

تجزیہ کار کاشف مرزا نے اسرئیل اور ایران کے اس تنازعے کے پس منظر میں ڈی ڈبیلو کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چند نہایت اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو متاثر کرنے والے بڑے مسائل میں سے ایک بیرونی ذرائع، خاص طور سے امریکی امداد اور ترسیلات زر پر بہت زیادہ انحصار ہے۔

پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں کاشف مرزا کا کہنا تھا،''پاکستان کو کسی سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور اس مسئلے پر دوست مسلم ممالک بالخصوص ایران اور سعودی عرب کے ساتھ کھل کر بات چیت کرنی چاہیے۔ پاکستان کو بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ مسلم ریاستوں کے وسائل ان کی باہمی جنگوں کی مالی امداد کی بجائے اپنے عوام کی بہتری کے لیے استعمال کیے جائیں۔

‘‘

کاشف مرزا کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بحران سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا مؤثر طریقے سے جواب دینے کے لیے پاکستان کو اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کے لیے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ ان کا کہنا تھا، ''غزہ کی جنگ ممکنہ طور پر مزید طویل تنازعات میں بدل جائے گی، جس کے مزید تباہ کن انسانی نتائج برآمد ہوں گے۔

ایران اور جی سی سی ریاستیں خطے میں تنازعات کے مختلف مخالف کیمپوں کی حمایت جاری رکھیں گی، جس سے ان کے تعلقات منقطع رہیں گے۔ لہٰذا پاکستان کو صورتحال کو مستحکم کرنے اور امن کی بحالی کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔‘‘

سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ تنازعے میں کردار کے بارے میں کاشف مرزا کا کہنا ہے، ''بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے کی اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہے۔

‘‘

ایران کی طرف سے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد اتوار 14 اپریل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اسرائیل کی طرف سے کیا حکمت عملی اختیار کیے جانے کے امکانات ہیں، اس بارے میں ڈوئچے ویلے کی مشرق وسطیٰ کے امور سے متعلق تجزیہ کار شانی روزنز کا کہنا ہے کہ ایران حملوں پر رد عمل کا تنہا فیصلہ کرنا اسرائیل کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

ان کے مطابق، ''اسرائیل کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لیے نازک اور متوازن طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ دکھانا مشکل ہے کہ وہ حد سے بڑھے بغیر فعال ہےکیونکہ بہت زیادہ بڑھنے سے حالات قابو سے باہر ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘

ڈوئچے ویلے کی تجزیہ کار نے مزید کہا،''واشنگٹن اور یروشلم کے درمیان دو طرفہ تعلقات بھی کشیدہ ہیں اور ایران یہ چاہتا بھی تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس وقت امریکی اسرائیل کی طرف سے کسی نئے اور مزید طاقتور اقدامات کے متحمل نہیں نظر آرہے ہیں نہ ہی وہ ایسا چاہیں گے۔‘‘