بھارتی انتخابات: نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 18 اپریل 2024 13:20

بھارتی انتخابات: نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اپریل 2024ء) جمعہ 19 اپریل سے شروع ہونے والے عام انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ ووٹ دینے والوں میں سے 18 اور 19 سال کے ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ 82 لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ 20 سے 29 سال کی عمر کے ووٹروں کی تعداد 19 کروڑ 74 لاکھ ہے۔ اس وجہ سے نوجوان ووٹر عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کی ہار جیت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ووٹرز ناراض کیوں؟

بھارتی انتخابات:تارکین وطن بی جے پی کے لیے کیوں اہم ہیں؟

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے کئی نوجوان ووٹروں سے بات کی جو پہلی مرتبہ ووٹ دینے والے ہیں۔ ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ نوجوان کس جماعت کی حمایت کریں گے۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسے کون سے موضوعات ہیں جو انہیں متاثر کرتے ہیں۔

ممبئی یونیورسٹی کے 22 سالہ طالب علم ابھیشیک دھوترے نے کہا کہ وہ حکومت کی شدت پسند ہندو قوم پرستی کے نتیجے میں ''پورے بھارت میں واضح فرقہ وارانہ تفریق‘‘ سے نا خوش ہیں۔

عام تاثر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے بھارت کی اکثریتی ہندوؤں کی مذہبی عقیدت کو سیاسی زندگی میں بالادستی دلادی ہے، جس سے مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے دل میں اس سیکولر ملک میں اپنے مستقبل کے حوالے سے تشویش لاحق ہوگئی ہے۔

بھارتی کشمیر میں عام انتخابات کی ہلچل اور سیاسی انتشار

مودی کو آئندہ انتخابی فتح کا یقین، وزراء کو نئے سالانہ اہداف تجویز کرنے کی ہدایت

حالانکہ دوسری طرف بھارت کی معیشت کافی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور وہ سن 2022 میں اپنے سابقہ نوآبادیاتی حکمران برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گئی۔

اس کے باوجود دھوترے چاہتے ہیں کہ مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی ایک بار پھر کامیابی حاصل کرے۔

انہوں نے کہا، ''جس طرح سے ترقی ہو رہی ہے، انفراسٹرکچر بڑھ رہے ہیں اور جو کام بھی چل رہے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے میں چاہوں گا کہ موجودہ حکومت برقرار رہے۔‘‘

نوجوان ووٹرکتنے پرجوش ہیں؟

تمل ناڈو کی رہنے والی 20 سالہ ترشالنی دوارکا ناتھ سافٹ ویئر ڈویلپر ہیں اور وہ بھارت کی اقتصادی تبدیلی کی علامت ہیں۔ اب وہ اپنے آبائی علاقے سے ٹیکنالوجی کے مرکز بنگلورو منتقل ہو رہی ہیں۔

پہلی مرتبہ ووٹ دینے والی ترشالنی کہتی ہیں، ''میں بھارتی جمہوریت کا حصہ بننے اور پہلی مرتبہ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے سلسلے میں کافی پرجوش ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میری آواز کی بھی اہمیت ہے۔‘‘

وہ مودی کے دور حکومت کی اب تک کی کامیابیوں کی معترف ہیں لیکن کہتی ہیں کہ لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو کام تلاش کرنے میں مدد کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

روزگار سب سے اہم موضوع

گزشتہ سال اکتوبر ۔ دسمبر کی سہ ماہی میں بھارت کی جی ڈی پی کی ترقی کی شرح 8.4 فیصد تھی جب کہ اس سے قبل ستمبر کو ختم ہونے والی سہ ماہی میں یہ شرح 7.6 فیصد رہی تھی، لیکن بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے اندازوں کے مطابق سن 2022 میں بھارت میں 29 فیصد گریجویٹ بے روزگار تھے۔ یہ تعداد ان لوگوں کے مقابلے میں تقریباً نو گنا زیادہ ہے جن کے پاس کوئی ڈپلوما نہیں ہے اور بالعموم کم تنخواہ والی ملازمتوں یا کنسٹرکشن سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔

پہلی مرتبہ ووٹ دینے والے 22 سالہ گرپرتاپ سنگھ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ وہ بی جے پی کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ گرپرتاپ ایک کسان ہیں اور ان کا تعلق بھارتی پنجاب صوبے سے ہے۔

سال 2021 میں پنجاب کے کسانوں نے تین زرعی قوانین کے خلاف پورے سال احتجاجی مظاہرے کیے تھے، جس کے بعد حکومت نے ان تینوں قوانین کو واپس لے لیا تھا۔ اسے ایک طرح سے وزیر اعظم مودی کی شکست کے طور پر دیکھا گیا۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی مانگیں ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہیں۔ گرپرتاپ کہتے ہیں، ''کئی کسان احتجاجی مظاہروں کے دوران مارے گئے اور انہیں اب تک انصاف نہیں ملا ہے۔‘‘

بھارت میں کسان الیکشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں ان کے ووٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔

گرپرتاپ کے مطابق، ''جو حکومت کسانوں، نوجوانوں کے بارے میں سوچتی ہے...اسی کو اقتدار میں آنا چاہیے۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی اس امتحان میں ناکام ہوچکی ہے۔

ٹرانس جینڈر بھی اپنے حقوق کے لیے سرگرم

بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں ٹرانس جینڈرز بھی شامل ہیں۔

سن 2014 میں بھارتی سپریم کورٹ نے ٹرانس جینڈر کو مرد یا خاتون کے بجائے ایک تیسری صنف کا درجہ دیا تھا۔ عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں حکومت سے کہا تھا کہ ٹرانس جینڈرز کو سماجی اور اقتصادی طورپر پسماندہ طبقہ تسلیم کیا جائے اور تعلیم اور ملازمت کے شعبوں میں انہیں بھی کوٹہ دیا جائے۔

اس سے بھارت کے 30 لاکھ سے زیادہ ٹرانس جینڈرز کو فائدہ ہوا اور انہیں بھی عام شہریوں کی طرح حقوق ملنے لگے۔

بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں 48044 ٹرانس جینڈرز رجسٹرڈ ووٹر ہیں، سابقہ الیکشن یعنی سن 2019 میں یہ تعداد 39075 تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے افراد کو تفریقی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وزیر اعظم مودی کے حلقہ انتخاب وارانسی کی ایک ٹرانس جینڈر سلمیٰ نے کہا کہ انہیں امید نہیں کہ بی جے پی حکومت کے ایک اور دور حکومت میں یہ تبدیلی آئے گی۔

سلمیٰ کا کہنا تھا، ''جب سے یہ حکومت اقتدار میں ہے، اس نے ہمارے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کردیا کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گی تاہم ان کا کہنا تھا، ''ہمیں مساوی حقوق ملنے چاہییں۔‘‘

ج ا/ا ب ا (اے ایف پی)