حکومت کے معاشی اشاریوں میں بہتری کے دعوﺅں میں کتنی حقیقت ہے؟ماہانہ اعداد و شمار کو بنیاد بناکرنہیں کہا جا سکتا کہ بہتری آچکی ہے.معاشی ماہرین

بہتری کے اثرات جب تک عوام کو منتقل نہ ہوں اس وقت تک یہ محض الفاظ ہیں اور انہیں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا سمجھا جائے گا ‘عالمی مالیاتی ادارے حکومتی اخراجات کم کرنے پر زور دے رہے ہیں مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات بڑھتے جارہے ہیں جن کا بوجھ براہ راست عام شہریوں پر آرہا ہے .رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 23 اپریل 2024 23:27

حکومت کے معاشی اشاریوں میں بہتری کے دعوﺅں میں کتنی حقیقت ہے؟ماہانہ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 اپریل۔2024 ) حکومت کی جانب سے معیشت اور معاشی اشاریوں میں بہتری کے دعوﺅ ں کے برعکس معاشی ماہرین اور مبصرین کا کہا ہے سب کچھ اچھا نہیں ہے ماہانہ کلیدی اقتصادی اشاریے یہ بھی بتاتے ہیں کہ بیرونی اور اندرونی شعبوں میں مختلف چیلنجز بدستور موجود ہیں معاشی بحالی کے ایسے امید افزا اشاریے نئے نہیں ہیں پاکستان کی معاشی تاریخ اور حالیہ تاریخ میں بھی یہ مختلف مواقع پر دیکھے گئے ہیں لیکن بعد میں یہ چیزیں بلبلوں کی مانند ثابت ہوتی ہیں.

(جاری ہے)

اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار قرضوں پر ہے اور ہمیں اگلے چند سال کے دوران مسلسل 25 ارب ڈالر کی خطیر رقم واپس کرنی ہے اور اس کے ساتھ اپنے اخراجات بھی چلانے ہیں ایسے میں ماہانہ اعداد و شمار کو بنیاد بناکر قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ بہتری آچکی ہے اور بہتری کے اثرات جب تک عوام کو منتقل نہ ہوں اس وقت تک یہ محض الفاظ ہیں اور انہیں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا سمجھا جائے گا عام آدمی کی معاشی حالت بہتر ہونے، روزگار ملنے، بنیادی ضروریات پوری ہونے اور پاکستان کو اپنے پیروں پر معاشی طور پر مستحکم ہونے میں طویل سفر باقی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ابھی اس کا نیا آغاز ہوا ہے.

ماہرین کے مطابق ماضی میں بھی حکومتیں الفاظ کے گورکھ دھندے سے معاشی اعشاریوں کو بہتر دکھاتی رہیں تاہم بعد میں وہ سب مصنوعی طور پر پیدا کردہ ثابت ہوئے ‘عالمی بنک ‘آئی ایم ایف اور معاشی ماہرین اسلام آباد پر بار بارحکومتی اخراجات کم کرنے پر زور دے رہے ہیں مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات بڑھتے جارہے ہیں جن کا بوجھ براہ راست عام شہریوں پر آرہا ہے .

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستانی ماہرین معاشیات حکومتوں کے رویوں سے نالاں ہیں جبکہ دوسری جانب بنکرزکے ذریعے وزارت خزانہ کو چلانے کی کوششوں‘کرپشن‘سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی تشہیر کے لیے ایسے پروگرام متعارف کروانا جن سے عام شہریوں کو فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے ان تمام ایشوزپر پاکستانی حکومتوں کو معتبرمعاشی جریدوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے.

پاکستان میں معاشی حالات ناقابل عمل تجربات سے ٹھیک کرنے کی ناکام کوششیں اب تک جاری ہیں اور موجودہ حکومت نے بھی ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی روش نہیں بدلی‘توانائی کا شعبہ جو عام شہریوں کے لیے وبال جان بن چکا ہے اس میں خرابیوں کی ذمہ داری برسراقتدار دوبڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی پرعائد ہوتی ہے جنہوں نے ماضی میں اپنے اپنے اقتدار کے دوران ناقابل فہم معاہدے کیئے جن میں نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ایسے معاہدے شامل ہیں جو دنیا میں کسی اور ملک میں قابل عمل نہیں ہوسکتے مثال کے طور پر ان کمپنیوں کے ساتھ کیئے معاہدوں کے تحت حکومت انہیں ایک فکس قیمت پر بجلی بنانے کے لیے فیول(فرنس آئل اور گیس)فراہم کرئے گی جبکہ کمپنیاں بجلی پیدا نہ کرکے بھی کپیسٹی چارجزکے نام پر لاکھوں ڈالر ماہانہ وصول کرتی رہیں گی ‘عالمی منڈی میںتیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاﺅ ”فیول ایڈجسٹمنٹ“کے نام پر صارفین سے وصول کیا جاتا ہے.

حکومتی دعوﺅں کے مطابق معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ اب اس کمزور معیشت میں کئی ماہ کے بعد بحالی کے کچھ آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں جسے حکمرانوں کی جانب سے کامیابی کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ استحکام کی نئی علامات کو پنپنے اور ایک عام شہری تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہے حکومتی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ رواں مالی سال کے آغاز یعنی جولائی سے مارچ تک گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1.2 ارب ڈالر کی آمد کے مقابلے میں ملک کو اس سال 1.09 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں جو مجموعی طور پر 9.7 فی صد کی کمی یا 118 ملین ڈالر کے نقصان کو ظاہر کرتا ہے پاکستان خطے میں سب سے کم بیرونی براہ راست سرمایہ کاری حاصل کرنے والا ملک ہے اور یہ شرح سالانہ دو ارب ڈار کے اردگرد رہتی .

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زرمیں اتارچڑھاﺅآتا رہتا ہے جیساکہ اپریل میں تین ارب ڈالر کی ریکارڈ رقوم بجھوائی گئیں وفاقی وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن رقوم بھیجنے میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے اور اس بار یہ ریکارڈ تین ارب ڈالر سے بھی زیادہ رہی ہیں جبکہ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کی مد میں 21 ارب ڈالر کی رقم آئی ہے جو گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 9 مہینوں کے 20.8 ارب ڈالر کی نسبت 0.9 فی صد زیادہ ہے.

معیشت دان عبدالعظیم نے ”وائس آف امریکا“سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو معیشت کے بیرونی سیکٹر کو استحکام دینے کے لیے جہاں برآمدات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے وہیں اندرونی استحکام کے لیے ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے گزشتہ مالی سال پاکستان میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس جمع کرنے کی شرح محض 9.24 فی صد ریکارڈ کی گئی جو اس سال بھی اتنی ہی رہنے کا امکان ہے اسے کم از کم 15 فی صد تک بڑھانا ہو گا اور اس کے لیے حکومت نے بعض اقدامات کیے تو ہیں لیکن ابھی ان کے اثرات آنا باقی ہیں دوسری جانب اخراجات کی رفتار کافی تیز ہے اور یہ گزشتہ سال جی ڈی پی کا 19 فی صد سے بھی زیادہ رہے ہیں انہیں کم کرنے کی گنجائش موجود ہے.

معاشی ماہر ریاض علی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت گزشتہ سال بڑھنے کے بجائے سکڑی تھی ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی کے باعث سروسز اور صنعتی سیکٹر کی کارکردگی کافی خراب رہی تھی لیکن اس کے مقابلے میں گزشتہ سال زرعی شعبے میں کچھ بہتری دیکھی گئی اور اس سال بھی زراعت کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بہتر پرفارمنس دے رہا ہے انہوں نے کہا کہ فصلوں کی بہتر پیداوار کے باعث جی ڈی پی دو فی صد کے قریب رہنے کی توقع کی جا رہی ہے اور انہی اثرات کے باعث ملک میں گندم کے آٹے کی قیمت کم ہوئی جب کہ دیگر زرعی اجناس کی قیمتوں میں بھی استحکام دیکھا گیا ہے.

انہوں نے بتایا کہ بہتر زرعی پیداوار کی وجہ سے ملک میں مجموعی مہنگائی میںمعمولی کمی آئی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی آئندہ میٹنگ میں جو 29 اپریل کو ہونے جا رہی ہے شرح سود کم ہونے کی توقع ہے جو اس وقت 22 فی صد کی بلند شرح پر ہے اس کی وجہ سے ملک میں تاجروں اور صنعت کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے باعث ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے.

عبدالعظیم نے زور دیا کہ حکومت کو پالیسیوں کے تسلسل پر توجہ دینی چاہیے اور اسے ایسے بڑے فیصلے لینے ہوں گے جنہوں نے گزشتہ 25 برسوں میں ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے ان کے خیال میں ٹیکس نظام میں اصلاحات متعارف کرانا، اسمگلنگ کو روکنا، صنعتی ترقی کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی، غیر ضروری اخراجات کی کٹوتی اور انسانی سرمائے کو مزید قابل عمل بنانے جیسے اقدامات ہی سے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں انہوں نے کہانے کہا کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے چیلنجز بہت بڑے ہیں اور پاکستان نے ان چیلنجز کو عبور کرنے کے لیے ابھی ایک نیا آغاز کیا ہے جبکہ منزل ابھی بہت دور ہے.

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی میں کمی کا دعوی گندم اور آٹے کی قیمتوں میں کمی پر کررہی ہے جوکہ فصل اچھی ہونے کی وجہ سے ہے چونکہ پاکستان کی سیاست میں روایتی سیاسی حربوں کا استعمال بے دریغ کیا جاتا ہے اور حکومتیں تشہیر کے لیے معمولی سے معمولی چیزکا کریڈٹ لینے سے بھی نہیں چوکتیں انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی اصل وجہ اگر پورے پاکستان کو ہے تو حکومت کو کیسے نہیں؟بجلی ‘ گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے دریغ اضافے‘روپے کی قدر کو رضاکارانہ طور پر کم کرنے‘یوٹیلٹی بلوں پر اضافی ٹیکسوں کی بھرمار سے ضروریات زندگی کی لاگت بڑھی ہے اسی طرح ایک عام تنخواہ دار شہری کو اپنی مجموعی آمدن کا پچاس فیصد تک صرف بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں خرچ کرنا پڑتا ہے .

بنیادی ضرورت کی اشیاءتک پر بھاری شرح کے ساتھ جنرل سیلزٹیکس عائد ہے ایک شہری گھر کے لیے اگر دس ہزار روپے کی بنیادی اشیاءخریدتا ہے تو اسے بائیس‘تیئس سو روپے جی ایس ٹی دینا پڑتا ہے پاکستان میں حکومتیں ٹیکسوں کی شرح کا موزانہ یورپ ‘امریکا سے کرتی ہیں تاہم ان ممالک کی طرح شہریوں کو سہولتیں مہیا کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتیں بیشتر مغربی ممالک میں سکول لیول تک تعلیم مفت ہے جبکہ پاکستان میں شہریوں کی کمائی کا بڑا حصہ بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوجاتا ہے کیونکہ حکومت تعلیم اور صحت جیسی سہولیات کو نجی شعبے کے حوالے کرکے بری الزامہ ہوچکی ہے‘اسی طرح مغربی ممالک میں ٹیکس دینے سے شہریوں کو بڑھاپے میں بہت ساری سہولیات دستیاب ہوتی ہیں جن میں ریاست کی جانب سے رہائش ‘صحت‘خوراک ‘معذوری یا نقل وحرکت میں مسائل ہونے پر گھر پر نرسنگ کی مفت سہولت‘معذوری کی صورت میں ریاست کی جانب سے ذمہ داری لینا‘کم آمدن والے خاندانوں کے لیے خصوصی رہائش گاہیں‘اعلی تعلیم یا ہنر سیکھنے کے لیے معاونت سمیت بہت ساری دیگر سہولیات مہیا ہوتی ہیں .

ماہرین کا کہنا ہے ٹیکس کے نظام کرپشن کی وجہ سے جب بڑے صنعت کاروں یا کاروباری افراد کو بروقت اور رشوت دیئے بغیر ”ریبیٹ“نہیں ملتا تو وہ ٹیکس چوری کرتا ہے عام شہریوں سے پہلے ہی حکومت اتنے زیادہ ان ڈائریکٹ ٹیکس وصول کررہی جس سے ان کی کمرٹوٹ چکی ہے اور بچت کا تصور تک ختم ہوچکا ہے انہوں نے کہا کہ جب تک شہریوں پر سے معاشی بوجھ کم نہیں کیا جائے گا وہ حکومت کے معاشی بہتری کے دعوﺅں کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ پاکستان کے قیام سے اب تک انہیں حکومتوں کے بس جھوٹے وعدے اور دلاسے ہی ملے ہیں اسے لیے اب وہ کسی ٹھوس اقدام کے بغیرحکومتی دعوﺅں کو تسلیم نہیں کریں گے.

ادھر وزیرخزانہ اورنگزیب بار بار دہرارہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان کی شمولیت اس کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہے اور اس حوالے سے کوئی پلان بی نہیں ہے پاکستان کو اب ان پالیسی نسخوں پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے جو ایک طویل عرصے سے پیش کیے جا رہے ہیں وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح آئندہ تین چار سالوں میں 13 سے 14 فی صد تک لے جائی جا سکے جبکہ معاشی ماہرین ان کے اس دعوی پر حیران ہیں کیونکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ سب ممکن کیسے ہوگا؟حکومت کارٹیلزاور مافیازپر قابو پانے میں تو کامیابی حاصل نہیں کرسکی اس لیے سارا بوجھ ایک بار پھر عام شہریوں پر ڈالا جائے گا جن کے لیے اب مزید معاشی بوجھ اٹھانا ممکن نہیں رہااگر حکومتی زبردستی شہریوں پر سخت قسم کی ٹیکس پالیسیاں نافذکرنے کی کوشش کرئے گی تو اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھی طاقتور اشرافیہ کو نازک صورتحال کو سمجھنا ہوگا اور عوام پر مزید بوجھ لادنے کی بجائے ایک طرف حکومتوں کے شاہانہ اخراجات کم کرنا ہونگے تو دوسری جانب بااثراشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنا ہونگے اور اعلی سرکاری حکام واہلکاروں کو قومی خزانے سے دی جانے والی مفت سہولیات کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا.