آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں کا فسلطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی کیمپ جاری

کیمپ میں یہودی طالب علموں کی بھی شرکت‘طالب علموں کا یونیورسٹی انتظامیہ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 11 مئی 2024 16:45

آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں کا فسلطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی ..
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11مئی۔2024 ) برطانیہ کی معروف یونیورسٹی ”آکسفورڈ“ کے طالب علموں کی جانب سے غزہ کی پٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل سے مکمل انخلاءاور اسرائیل سے منسلک کمپنیوں کے بائیکاٹ کے لیے احتجاج جاری ہے طلباءنے آکسفورڈ کے پٹ ریورز میوزیم کے باہر درجنوں خیموں کے ساتھ کیمپ میں شرکت کی ہے جہاں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا استقبال کیا گیا.

انہوں نے اس علاقے میں یکجہتی کے ماحول میں احتجاج جاری رکھا کیمپ میں ایک طبی خیمہ، اسنیک ایریا اور میٹنگ پوائنٹس بھی شامل ہیں جن میں بہت سے فلسطینی جھنڈے اور پلے کارڈ آویزاں ہیں جن پر”نسل در نسل، مکمل آزادی تک“تک جیسے نعرے درج ہیں .

(جاری ہے)

اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والی خاتون فلسطینی صحافی کے نام سے منسوب ایک میڈیا روم اور ایک یادگاری لائبریری بھی قائم کی گئی ہے جس کا نام ممتاز فلسطینی شاعرہ ‘مصنفہ اور استادرفعت الایریر کے نام پر رکھا گیا ہے جو غزہ میں ایک فضائی حملے میں ماری گئی تھیں.

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے حالیہ بیان کے باوجود جس میں یونیورسٹی کے منتظمین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کیمپس میں یہودی طلباءکو ”ہراساں“ کرنے اور یہود مخالف سلوک سے بچائیں جبکہ یہودی طلباءبھی آکسفورڈ کے احتجاج میں شریک ہیں 25سالہ یہودی طالبہ علم کینڈل گارڈنر کا کہنا تھا کہ وہاں فلسطینیوں کے حق میں لگائے گئے کیمپ میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں انہوں نے کہا کہ اس احتجاج میں شامل ہونے کے ”نتائج“کیا ہونگے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں .

ان کا کہنا تھا کہ جب سے یہ کیمپ شروع ہوا ہے میں ہم لوگ یہاں ہی سو رہے ہیں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں اس کیمپ میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں جتنا کہ میں ایک یہودی طالب علم کے طور پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں عام طور پر کرتی ہوں. گارڈنر نے کہا کہ مظاہرے کے منتظمین نے یونیورسٹی کے دوسرے یہودی طلباءکو کیمپ میں آنے اور بات چیت کرنے کی دعوت دی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ یہودی طلباءغزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں بہت مختلف محسوس کرتے ہیں ہم اسرائیل کے موقف کو نقطہ نہیں بلکہ ایک نسل کشی سمجھتے ہیں .

انہوں نے کہا کہ رفح میں موجودہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران 1اعشاریہ7 ملین افراد اس وقت نقل مکانی کے خطرے سے دوچار ہیں وہ کہاں جائیں گے؟کیونکہ آگے مصر کی سرحد ہے جو بند ہے جبکہ پیچھے اسرائیلی فورسزہیں انہوں نے کہا کہ ہم کمیونٹی کے اردگرد سے یہودی طلباءکے آنے اور اس کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنے پر زیادہ خوش ہیں. گارڈنر نے کہا کہ ہم لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یونیورسٹی تمام اسلحہ ساز کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کر لے، خاص طور پر جو اس وقت غزہ میں ہونے والی نسل کشی میں اسرائیلی قبضے کی نسل کشی میں ملوث ہیں ہم اسرائیل کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں.

آکسفورڈ یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کے ایک 22 سالہ طالب علم ڈینیئل نور نے بتایا کہ مظاہرین یونیورسٹی انتظامیہ پر دباﺅ بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ نسل کشی کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرئے انہوں نے کہا کہ ”آکسفورڈ“ ایک ادارے کے طور پر کئی سالوں سے نوآبادیاتی ”منصوبوں“ میں اسرائیل کی نسل پرست ریاست کے ساتھ تعاون کر رہا ہے مظاہرین یونیورسٹی سے اپنی سرمایہ کاری کے بارے میں تمام معلومات ظاہر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا ان کی فیسوں کو نسل کشی کی فنڈنگ کے لیے تو استعمال نہیں کیا جا رہا.

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کو فوری طور پر اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے اور اسرائیلی اداروں کے ساتھ طلباءکے پروگرام بند کرنے کی ضرورت ہے ہم گھر بیٹھ کر مذمت نہیں کرنا چاہتے اس لیے کیمپ میں آئے ہیں تاکہ یہ پیغام دے سکیں کہ ہم اس تباہی کا حصہ نہیں ہیں‘نور نے کہا کہ اگرچہ کیمپ میں کا ماحول بڑا پرجوش ہے لیکن جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے سب غصے اور غم سے بھرے ہوئے ہیں.