ڈیر ی اورلائیواسٹاک سیکٹر کوشعبے کو عالمی معیارات کے تحت بدلنے کی ضرورت

منگل 7 مئی 2024 23:29

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 مئی2024ء) دودھ کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا اورزراعت کا بڑا ذیلی شعبہ ہونے اورلائیو اسٹاک کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈڈ زراعت میں 60فیصد سے زائد اور مجموعی جی ڈی پی میں 11.7فیصد حصہ ڈالنے کے باوجود پاکستان کے ڈیری سیکٹر کو مسلسل چیلنجز کا سامناہے۔ یہ چیلنجز اس کی بہترین صلاحیت میں رکاوٹ ہیں۔ پاکستان کی ڈیری اور بیف انڈسٹری24کروڑ آبادی کی دودھ اور گوشت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے محدود کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے اوربین الاقوامی معیار کے مطابق لانے کیلئے اس شعبے میں بہتری کیلئے بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انڈسٹری ماہرین نے کلائوڈ ایگری پاکستان ،ناسا اور Denkavit Nederlandکے درمیان شراکت داری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ ناسالائیو اسٹاک کمپنی جانوروں کی 'برآمدات کی صفِ اوّل آسٹریلوی کمپنی ہے اورڈینکا ویٹ نیدرلینڈ بچھڑوں کی خوراک کے حوالے سے عالمی لیڈر ہے جوکہ بچھڑوں کی خوراک کے شعبے میں 90سال سے زائدکا تجربہ رکھتی ہے۔

اس موقع پر ہالینڈ کی سفیر ہینی فوکل ڈی ویریز نے اپنے خطاب میں کہاکہ پاکستان اور ہالینڈ کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں جن میں مزید اضافہ چاہتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں50سے زائد ڈچ کمپنیاں زراعت اور ڈیری سیکٹر سمیت مختلف شعبوں میں کام کررہی ہیں۔ غیر ملکیوں کمپنیوں کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع دستیاب ہیں ۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ اس شراکت داری کے مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔

اس موقع پر کلائوڈ ایگر ی پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور کلائوڈ ایگر ی گروپ کے گلوبل بزنس ڈائریکٹر ڈاکٹر رانا شوکت حسین نے کہاکہ ناسااورڈینکیوٹ کے ساتھ مل کر ، ہم نہ صرف اعلیٰ لائیو اسٹاک اور نیوٹریشن سلوشنز متعارف کرارہے ہیں بلکہ پاکستان کے ڈیری اور بیف کسانوں کیلئے اعلیٰ بین الاقوامی طریقوں کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معلومات کے تبادلے کیلئے ایک پلیٹ فارم کو بھی فروغ دے رہے ہیں ۔

اس شراکت داری سے پاکستان کے ڈیری اور بیف سیکٹر کو غیر معمولی فوائد حاصل ہوں گے۔اس شراکت داری کے تحت ناسااعلیٰ معیار کے ڈیری اور بیف کے آسٹریلوی جانورفراہم کرے گی، جبکہ ڈینکیوٹ پاکستان کے لائیو اسٹاک کے کسانوں کو بچھڑے پالنے کے جدید ترین سلوشنز فراہم کرے گی۔ اس شراکت داری کا مقصداعلیٰ نسل کے مویشیوں کی آسٹریلیا سے فراہمی اور بچھڑوں کی غذائیت کے جدید سلوشنز کے ذریعے پاکستان کے ڈیری اور لائیو اسٹاک کے شعبوں کو ترقی دیتے ہوئے عالمی معیارتک پہنچاناہے۔

یہ اسٹریٹجک شراکت داری مقامی کسانوں اور اسٹیک ہولڈرز کو ضروری آلات اورمعلومات کے ساتھ بااختیار بنانے کیلئے تیار کی گئی ہے تاکہ پیداوار بڑھانے ، جانوروں کی صحت کو بہتر بنانے اور انڈسٹری کی مجموعی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔ ڈیری اور پروٹین کی بڑھتی ہوئی طلب اورفوڈ سیکیوریٹی کے چیلنجز کو پوراکرنے اور پیداوار کو بین الاقوامی معیارپر لانے کیلئے اس شراکت داری کے ایک حصے کے طورپر کسانوں کو کاشت کاری اورلائیواسٹاک کی جدیدتکینکس اور اسکلزسے آراستہ کرنے کیلئے ایک جامع اشتراک کا فریم ورک تیار کیاجائے گا۔

مقامی مویشیوں کی جینیات کو بہتر بنانے اور دودھ کی پیداوار کو بڑھانے کیلئے حکومتِ پنجاب ڈیری اور بیف بریڈنگ کے مختلف پالیسی اقدامات پر عمل پیرا ہے۔ ان اقدامات میں مصنوعی حمل کی خدمات کی فراہمی، افزائش نسل کے پروگرام، صلاحیت سازی، مالی مدد اور افزائش نسل کی پالیسیوں کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ ایف ایم ڈی فری کمپارٹمنٹس بنا کر گائے کے گوشت کی برآمدکے مواقع پیدا کرنا شامل ہیں۔

تقریباً30ملین گائیںاور اتنی ہی تعداد میں بھینسیں،100ملین سے زائد بھیڑوںاور بکریوں پر مشتمل جانور مجموعی طورپر سالانہ 60ملین ٹن سے زائد دودھ دیتے ہیں جوملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور ذریعہ معاش کو سہارا دینے میں اس شعبے کے اہم کردار کی نشاندہی ہے۔تاہم ڈیری مصنوعات خاص طورپر دودھ کی طلب میں سالانہ 10سے 15فیصد اضافہ ہورہا ہے جبکہ پیداوار کی شرح سالانہ 3سے 4فیصدسے بھی کم ہے۔

تقریباً3.5بلین لیٹرکے طلب اور رسد کے واضح فرق کی وجہ سے ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ویلیو ایڈڈ ڈیری مصنوعات پنیر، مکھن اور پائوڈر دودھ درآمد کیاجارہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ایل اینڈ ڈی پنجاب ڈاکٹر سجاد حسین سانگھی نے اس موقع پر کہاکہ تاریخی طورپر پاکستان میں لائیو اسٹاک کے شعبے میں چھوٹے پیمانے کے پروڈیوسرز کی اکثریت رہی ہے اور اس کے روائتی طریقے ملک بھر میں رائج ہیں۔

تاہم جدید ٹیکنالوجی اورآگاہی میں اضافہ کے ساتھ ، انڈسٹری ایک تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ سرکاری محکمہ بغیر کسی رکاوٹ کے ترجیحی بنیادوں پر کام کررہا ہے تاکہ ایف ایم ڈی فری پروگرام تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں ویکسین کی جدیدٹیکنالوجیزکواپنانے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس کیلئے عالمی کمپنیوں کو سہولت فراہم کی جاسکے۔ افزائشِ نسل کی aبہتر تکنیک، خوراک کا بہتر انتظام اور مویشیوں کیلئے جدید ہیلتھ کیئرسمیت چھوٹے کسان بتدریج جدید طریقوں کو اپنا رہے ہیں۔

اس موقع پرماہرین نے کہاکہ پیداواری عمل میںعدم افادیت کے ساتھ ساتھ دودھ اور گوشت کی پیداوار بڑھانے کیلئے جدیدتکنیکس کے بارے میں کسانوں میں آگاہی کی کمی جیسے اہم چیلنجز کا سامناہے۔ اس کے علاوہ ذخیرہ کرنے اور نقل و حمل کی سہولیات سمیت ناکافی انفرااسٹرکچر، معیار اور حفظان صحت کے خدشات کو بڑھاتاہے جس سے اس سیکٹرکی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

اس موقع پر لائیو اسٹاک بریڈنگ اتھارٹی پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر علیم بھٹی نے کہاکہ تکنیکی ایجادات سے فائدہ، پائیدار طریقوں کے فروغ اور ڈیری اور بیف فارمنگ میں مارکیٹ روابط اور افزائشِ نسل کے جدید پروگراموں کو مضبوط بنا کرملک بھر میں معاشی ترقی اور روزگار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنس کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد مظہر ایاز نے کہاکہ اس طرح کی تقریبات کلیدی اسٹیک ہولڈرز، انڈسٹری ماہرین،ماہرینِ تعلیم اور حکومت کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں۔

محکمہ لائیواسٹاک،ایگریکلچرل پروفیشنلز اور ڈیری اور بیف کسان ملک بھر میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے تجربات کا اشتراک اور بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے فوڈ اور فیڈ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایک متحرک اور پائیدار مستقبل کی جانب ایک اجتماعی لائحہ عمل طے کریں اور چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل نجی شعبے کے ساتھ ہاتھ ملانے کا ہمیشہ خیر مقدم کرے گی۔

اس موقع پر یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنس کے سابق وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشانے کہاکہ اس سہہ فریقی شراکت داری کے وژن کے ذریعے فوری طورپر تجارتی مفادات اور پائیدار شراکت داری کو فروغ دینا چاہیے تاکہ پاکستان کی ڈیری اور لائیو اسٹاک کسانوں کو فائدہ ہو۔ یہ شراکت داری اعلیٰ معیار کے ڈیری ایڈوانس نیوٹریشن سلوشنزاور مویشیوں کی آمد ،نیدر لینڈ اور آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ زرعی اور لائیو اسٹاک کے شعبے میں ترقی کیلئے ان کے مشترکہ عزم کو تقویت دے گی۔