توانائی بحران کے خلاف کوئٹہ میں کسانوں کا احتجاجی دھرنا

DW ڈی ڈبلیو پیر 13 مئی 2024 17:40

توانائی بحران کے خلاف کوئٹہ میں کسانوں کا احتجاجی دھرنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2024ء) حکومت اور دھرنا مظاہرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔ کسانوں کے مطالبات وفاق تک پہنچانے کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے پیر کے دن دارالحکومت اسلام آباد کا خصوصی دورہ بھی کیا۔

کوئٹہ کی اہم اور حساس شاہراہ زرغون روڈ پر جاری احتجاجی دھرنے میں کوئٹہ سمیت صوبے بھر سے آئے ہوئے کسان شریک ہیں۔

اسی روڈ پر وزیراعلیٰ ہاوس، گورنر ہاوس اور بلوچستان ہائی کورٹ سمیت دیگر اعلیٰ سول اور فوجی حکام کے دفاتر بھی واقع ہیں۔

بلوچستان میں محکمہ زراعت کے اعدادوشمار کے مطابق صوبے کا کل رقبہ 8 کروڑ 58 لاکھ ایکڑ ہے، جس میں سالانہ تقریبا 28 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مختلف فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

بلوچستان کے کسان اور چھوٹے کاشتکار کیا چاہتے ہیں؟

بلوچستان زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنماء، غلام رسول کہتے ہیں کہ ترقی کی دعویدار موجودہ حکومت نے صوبے کے زرعی شعبے کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں صرف دو اضلاع میں نہری نظام موجود ہے، باقی تمام 36 اضلاع میں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ ٹیوب ویلز ہیں۔ صوبے کے تمام 29 ہزار ٹیوب ویلوں کو اس وقت حکومت 24 گھنٹوں میں صرف 3 گھنٹے بجلی مہیا کر رہی ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث کھیتوں کو پانی نہیں مل پا رہا ہے۔ فصلیں تباہ ہوتی جا رہی ہیں۔

حکومت صرف فرضی دعوؤں سے عوام کی انکھوں میں دھول جھونک رہی ہے ۔"

غلام رسول کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے زرعی ٹیوب ویلوں کو حکومت نے سبسڈی کی فراہمی کا جو دعویٰ کیا تھا، اسے بھی پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''توانائی کا بحران حکومت کا پیدا کردہ ہے۔ نااہل حکومت نے صوبے کے دیہی انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے نظام میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔

بلوچستان کے زرعی شعبے کو بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی ان احکامات کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے، جو کہ سابق نگران دور حکومت میں دیے گئے تھے۔‘‘

بلوچستان سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار کا سب سے اہم ذریعہ

بلوچستان میں زرعی شعبہ ملک بھر میں سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

کسانوں کے دھرنے میں شریک پشین کے کسان، ملک نصیب اللہ کہتے ہیں کہ آئندہ چند یوم اگر بجلی کا یہی بحران مزید جاری رہا تو صوبے کی تمام فصلیں تباہی سے دوچار ہوجائیں گی۔

ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ملک نصیب نے کہا، ''بلوچستان کا زرعی شعبہ پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔

صوبے میں زرعی شعبے کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کی سیب کی سالانہ پیداوار، 16 لاکھ ٹن، ٹماٹر کی پیداوار 10 لاکھ ٹن، انگور کی پیدوار 6 لاکھ ٹن جبکہ پیاز کی پیداوار 7 لاکھ ٹن سے زائد ہے۔‘‘

نصیب اللہ کے بقول بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے لیکن بجلی صرف 29 ہزار ٹیوب ویلوں کو ہی فراہم کی جاتی ہے ۔

کسانوں کے احتجاجی دھرنے میں سیاسی قائدین بھی شریک

کسانوں کے احتجاجی دھرنے میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بھی شرکت کی۔ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے تباہی کی اس نہج تک آن پہنچا ہے۔ بلوچستان کے زمینداروں کے تمام مطالبات فوری حل طلب ہیں۔

زرعی زمینوں کو ہنگامی بنیادوں پر پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مرکزی حکومت ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے۔‘‘

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور مرکز میں پیپلز پارٹی حکومت کر رہی ہے، اس لیے صوبے کے توانائی کے اس بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے فرضی دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔

احتجاجی دھرنے میں مختلف دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی خطاب کیا ہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت نے زرعی شعبے کو درپیش توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات نہ کیے تو صوبے بھر کو احتجاج بلاک کر دیا جائے گا۔

کسانوں کے بقول رواں سال ہونے والی طوفانی بارشوں سے بھی صوبے میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، جس کے ازالے کے لیے حکومت سنجیدگی کا کوئی مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔