آئرلینڈ جلد فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لے گا، وزیر خارجہ

DW ڈی ڈبلیو بدھ 15 مئی 2024 20:40

آئرلینڈ جلد فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لے گا، وزیر خارجہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مئی 2024ء) آئرلینڈ کے وزیر خارجہ مائیکل مارٹن نے بدھ کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئرلینڈ مئی کے آخر تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا تاہم انہوں نے اس حوالے سے کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔

مائیکل مارٹن آئرلینڈ کے نائب وزیر اعظم بھی ہیں۔ انہوں نے نیوز ٹاک ریڈیو اسٹیشن کو بتایا، ''ہم رواں ماہ کے اختتام سے پہلے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیں گے۔

‘‘

مارچ میں اسپین، آئرلینڈ، سلووینیا اور مالٹا کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

آئرلینڈ ایک طویل عرصے سے کہہ رہا تھا کہ اگر مشرق وسطیٰ کے امن عمل میں مدد مل سکتی ہے، تو اسے فلسطینی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے میں اصولاً کوئی اعتراض نہیں۔

(جاری ہے)

لیکن غزہ میں حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ نے اس مسئلے کو ایک نئی تحریک دی ہے۔

گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ یوزیپ بوریل نے کہا تھا کہ اسپین، آئرلینڈ اور سلووینیا نے 21 مئی کو فلسطینی ریاست کو علامتی طور پر تسلیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور دیگر کئی ممالک ممکنہ طور پر ان کی پیروی کریں گے۔

اسرائیل رفح آپریشن ختم کرے، یورپی یونین

یورپی یونین نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ رفح میں اپنا آپریشن فوری طور پر ختم کر دے کیونکہ یہ آپریشن غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی تقسیم میں خلل ڈال رہا ہے۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ بوریل کا کہنا ہے کہ یہ فوجی آپریشن اندرونی نقل مکانی، قحط اور مصائب کا باعث بن رہا ہے۔

بوریل نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا، ''یورپی یونین اسرائیل پر زور دے رہی ہے کہ وہ غزہ میں پہلے سے ہی سنگین انسانی صورتحال کو مزید خراب کرنے سے باز رہے اور رفح کراسنگ پوائنٹ کو دوبارہ کھولے۔ اگر اسرائیل نے رفح میں اپنی فوجی کارروائی جاری رکھی تو یہ لامحالہ اسرائیل کے ساتھ یورپی یونین کے تعلقات پر شدید دباؤ ڈالے گی۔

‘‘

بوریل نے اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسے بغیر کسی رکاوٹ کے انسانی بنیادوں پر امداد گزرنے کی اجازت اور سہولت فراہم کرنا چاہیے۔

سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں قریب 12 سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور غزہ میں شہری ڈھانچے کی بڑے پمانے پر تباہی کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔

غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اب تک 35,233 افراد ہلاک اور 79 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 15 ہزار بچے بھی شامل ہیں۔

حوثی باغیوں کا امریکی بحری جہاز پر حملہ کرنے کا دعویٰ

یمن کے حوثی باغیوں نے بدھ کے روز کہا کہ انہوں نے بحیرہ احمر میں ایک امریکی جنگی جہاز اور ''ڈسٹنی‘‘ نامی ایک بحری جہاز کو نشانہ بنایا ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ یہ حملے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیے جا رہے ہیں۔

ایک ٹیلی وژن تقریر میں حوثیوں کے فوجی ترجمان یحییٰ ساریہ نے کہا کہ انہوں نے بحیرہ احمر میں ''میسن‘‘ نامی ایک امریکی جہاز کو بھی متعدد ''مناسب بحری میزائلوں‘‘ سے نشانہ بنایا ہے۔ ساریہ نے مزید کہا کہ حوثیوں نے بحری جہاز ڈیسٹنی کو اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ یہ 20 اپریل کو اسرائیلی بندرگاہ ایلات کے لیے جا رہا تھا۔

ساریہ نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں جہازوں کو کب نشانہ بنایا گیا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز آزادانہ طور پر حوثیوں کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکی۔

جنگ کے سائے میں یوم نکبہ

دوسری طرف آج فلسطینی دنیا بھر میں 76 واں یوم نکبہ منا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل نے 1948ء میں 760,000 سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا۔

اس بےدخلی کے لیے نکبہ یعنی تباہی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ہر سال 15 مئی کو فلسطینی یوم نکبہ مناتے ہیں۔ اس وقت فلسطینی مہاجر کمیونٹی کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ بنتی ہے۔

آج مقبوضہ مغربی کنارے کے مرکزی شہر رام اللہ میں بھی نکبہ کی برسی کے موقع پر تقریبات منعقد کی گئیں۔ ہزاروں افراد فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور انہوں نے ان دیہات کی طرف مارچ کیا، جہاں سے ان کے آبا و اجداد کو بے دخل کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ فلسطینی مہاجرین مغربی کنارے، غزہ پٹی، اردن، لبنان اور شام میں آباد ہیں جبکہ دیگر فلسطینی دنیا بھر کے ممالک میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ا ا / ش ر، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)