شمالی کوریا میں جبری مشقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی، او ایچ سی ایچ آر

یو این بدھ 17 جولائی 2024 01:45

شمالی کوریا میں جبری مشقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی، او ایچ سی ایچ آر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 جولائی 2024ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ شمالی کوریا میں لوگوں سے منظم طور پر جبری مشقت لی جا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے تشدد اور جھوٹے الزامات جیسے ہتھکنڈوں سےکام لیا جاتا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ ملکی عوام کو جبری مشقت کے ایک جامع اور تہہ در تہہ نظام کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جو شہریوں کے بجائے ریاست کے مفاد کی تکمیل کے لیے وضع کیا گیا ہے۔

اس میں لوگوں کو مستقل نگرانی میں رکھا جاتا ہے، انہیں تواتر سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ خواتین کو ہر وقت جنسی تشدد کے خطرات درپیش رہتے ہیں۔

Tweet URL

'او ایچ سی ایچ آر' نے یہ بات جبری مشقت کے 183 متاثرین اور شمالیکوریا سے فرار اختیار کر کے بیرون ملک مقیم متعدد گواہوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کردہ ایک رپورٹ میں بتائی ہے۔

(جاری ہے)

غیرانسانی حالات

ادارے کی ترجمان لِز تھروسل کا کہنا ہےکہ شمالی کوریا میں لوگوں کو نہایت کڑے حالات میں اور عام طور پر خطرناک شعبوں میں اجرت، کام کے انتخاب کی آزادی، تحفظ، طبی نگہداشت، چھٹی، خوراک اور پناہ کے بغیر کام کرنا پڑتا ہے۔

قید خانوں کے حالات خاص طور پر تشویشناک ہیں جہاں متاثرین کو جسمانی تشدد کے خوف سے اور غیرانسانی حالات میں کام کرنا ہوتا ہے۔

بڑے پیمانے پر جبری مشقت غلامی کے مترادف ہو سکتی ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

رپورٹ میں چھ طرح کی جبری مشقت کا ذکر ہے جس میں دوران قید مشقت، ریاست کے تفویض کردہ کام، فوج میں جبری بھرتی اور 'شاک بریگیڈ' بھی شامل ہیں۔ 'شاک بریگیڈ' لوگوں کے ایسے گروہ ہیں جنہیں تعمیرات اور زراعت کے شعبوں میں ہاتھوں سے مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے۔

بلا اجرت کام

فوج میں جبراً بھرتی کیے جانے والے لوگوں کو 10 سال یا اس سے زیادہ عرصہ تک خدمات انجام دینا ہوتی ہیں۔ ان سے تعمیرات اور زراعت کے شعبے میں مسلسل کام لیا جاتا ہے۔ ایک فوجی ہسپتال میں کام کرنے والی سابقہ نرس نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ لازمی فوجی خدمت انجام دینے والوں کو صحت و تحفظ کی مناسب خدمات میسر نہیں ہوتیں۔

بہت سے سپای کمزور، تھکے ماندے اور خوراک کی کمی کا شکار اور تپ دق میں مبتلا ہوتے ہیں۔

'شاک بریگیڈ' میں بھرتی ہونے والوں کو مہینوں یا سالہا سال تک کام کی جگہوں پر ہی رہنا پڑتا ہے جنہیں معمولی سا معاوضہ ملتا ہے یا سرے سے کوئی اجرت نہیں دی جاتی۔ بیشتر گھرانوں میں کمانے کی ذمہ داری خواتین کی ہوتی ہے جنہیں ایسی جبری خدمات سے خاص طور پر نقصان ہوتا ہے۔

'سرکاری مزدور'

رپورٹ کے مطابق، ایسے الزامات بھی سامنے آئے ہیں کہ شمالی کوریا کی حکومت بعض شہریوں کو بیرون ملک کام کے لیے بھیجتی ہے تاکہ غیرملکی زرمبادلہ جمع کیا جا سکے۔ ان لوگوں کی 90 فیصد کمائی حکومت خود رکھ لیتی ہے۔بیرون ملک ان کی متواتر نگرانی ہوتی ہے اور ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے جاتے ہیں۔ انہیں برے حالات میں رہنا پڑتا ہے اور ان کے پاس اپنے خاندانوں سے رابطہ کرنے کے محدود امکانات ہوتے ہیں۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ منظم مشقت سکول کی سطح پر شروع ہو جاتی ہے جہاں بچوں کو دریاؤں کے کنارے صاف کرنے یا درخت اگانے کے لیے کہا جاتا ہے اور بچوں کو ایسی خدمات کے لیے تیار رہنا ہوتا ہے۔

رپورٹ میں شمالی کوریا کی حکومت سے جبری مشقت اور اپنے ہاں ہر طرح کی غلامی کا خاتمہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف تفتیش اور قانونی کارروائی کرے۔

'او ایچ سی ایچ آر' نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو بھی اس صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے کہا ہے۔