جنوبی ایشیا: خون کی کمی سے خواتین کی صحت اور معاشی مستقبل کو خطرہ

یو این جمعرات 10 جولائی 2025 03:00

جنوبی ایشیا: خون کی کمی سے خواتین کی صحت اور معاشی مستقبل کو خطرہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 10 جولائی 2025ء) جسم میں خون کی کمی جنوبی ایشیا میں صحت کا خاموش مگر وسیع بحران ہے جو غریب ترین خواتین اور لڑکیوں کو غیرمتناسب طور سے متاثر کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ ہنگامی طبی اقدامات کے بغیر 2030 تک مزید ایک کروڑ 80 لاکھ خواتین اس کا نشانہ بن جائیں گی۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور علاقائی ممالک کی تنظیم سارک کے مطابق، خواتین اور نوجوان لڑکیوں میں خون کی کمی کے اعتبار سے جنوبی ایشیا دنیا میں سرفہرست علاقہ ہے۔

Tweet URL

اندازے کے مطابق، خطے میں 259 ملین خواتین اس مسئلے کا شکار ہیں جو آکسیجن لینے کے لیے جسم کی صلاحیت کو نقصان پہنچاتا، شدید تھکن پیدا کرتا، زچگی کے مسائل کا سبب بنتا اور لڑکیوں کے لیے تعلیمی و معاشی مواقع کو محدود کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

یونیسف کے ریجنل ڈائریکٹر سنجے وجے سیکرا نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں تمام نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی نصف تعداد خون کی کمی کا شکار ہے اور اس طرح یہ محض طبی مسئلہ نہیں بلکہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ طبی نظام لوگوں کی صحت کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔

قابل انسداد طبی مسئلہ

خون کی کمی محض خواتین اور لڑکیوں کی صحت کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ دنیا بھر میں 40 فیصد کم وزن بچوں کی پیدائش کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔

اس سے بچے کی نشوونما اور سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جبکہ غریب گھرانوں کے بچے اس مسئلے سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہوتے ہیں۔

خون کی کمی کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کو سالانہ 32.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ اس سے غربت اور کمزور صحت کے سلسلے کو بھی دوام ملتا ہے۔

تاہم، خون کی کمی کا علاج ممکن ہے۔ جو لوگ اس مسئلے کا شکار ہوں ان کی صحت کو آئرن اور فولک ایسڈ کے سپلیمنٹ دینے، آئرن اور وٹامن سے بھرپور خوراک کی فراہمی، صحت و صفائی کے بہتر انتظام اور ذہنی صحت کی اچھی خدمات مہیا کر کے بحال کیا جا سکتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہےکہ اس ضمن میں پائیدار پیش رفت کے لیے مختلف شعبوں کا باہمی تعاون بہت ضروری ہوتا ہے۔

حوصلہ افزا پیش رفت

تقریباً ہر ملک میں اس حوالے سے پیش رفت کا دارومدار طبی نظام کو مضبوط بنانے، لوگوں کو غذائیت مہیا کرنے کے اقدامات کو وسعت دینے اور غریب طبقات میں نوجوان لڑکیوں اور خواتین تک رسائی پر ہوتا ہے۔

اس حوالے سے انڈیا اور پاکستان میں بھی حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے۔

انڈیا کے جن علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد خون کی کمی کا شکار ہے وہاں سکولوں اور زچہ کی نگہداشت کے پروگراموں میں آئرن سپلیمنٹ کی فراہمی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان نے مقامی سطح پر غذائیت کی فراہمی کے ایسے اقدامات شروع کیے ہیں جو تولیدی صحت کی خدمات سے منسلک ہیں اور ان کی بدولت ابتدائی مرحلے میں ہی خون کی کمی کی نشاندہی اور متاثرہ افراد کو ضروری طبی نگہداشت مہیا کی جاتی ہے۔

سری لنکا میں تولیدی عمر کی 18.5 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جہاں ملکی سطح پر غذائیت کے پروگراموں کو وسعت دی جا رہی ہے اور اس ضمن میں ایسے علاقے حکومتی توجہ کا خاص مرکز ہیں جہاں یہ مسئلہ بڑے پیمانے پر موجود ہے۔

اسی طرح، بنگلہ دیش نے صحت، تعلیم اور زراعت کی وزارتوں کے اشتراک سے سکولوں میں مقوی کھانے اور طبی تعلیم کی فراہمی کے اقدامات شروع کیے ہیں۔

کامیابی کی نمایاں مثال

مالدیپ اور بھوٹان نے چھوٹے بچوں کو غذائیت کی فراہمی کے ذریعے انہیں خون کی کمی کے مسئلے سے پیشگی تحفظ دینے کے ترجیحی اقدامات شروع کیے ہیں۔ اس سلسلے میں عوامی سطح پر آگاہی کی مہمات بھی چلائی جا رہی ہیں۔

نیپال اس حوالے سے کامیابی کی ایک نمایاں مثال ہے جہاں خون کی کمی کا شکار تولیدی عمر کی خواتین کی تعداد میں 2016 کے بعد 7 فیصد کمی آئی ہے۔

اس ضمن میں غریب علاقوں میں طبی مراکز کے قیام اور خواتین طبی رضاکاروں کا اہم کردار ہے۔ ان اقدامات کے تحت حاملہ خواتین کو انڈے، مرغی کا گوشت اور مقوی غذا فراہم کرنے کے علاوہ نقد مدد بھی دی جا رہی ہے۔

مشترکہ اقدامات کی ضرورت

جسم میں خون کی کمی کے مسئلے پر قابو پانا قیادت اور مشترکہ اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی سطح پر اقدامات بہت ضروری ہیں لیکن مقامی لوگوں، طبی کارکنوں، سکولوں اور خاندانوں کو بھی آگے آنا ہو گا۔

سارک کے سیکرٹری جنرل غلام سرور کہتے ہیں کہ مضبوط طبی نظام، بہتر معلومات اور ہر شعبے میں مربوط اقدامات کی بدولت خواتین اور لڑکیوں کی صحت کو بہتر بنانے اور انہیں اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لینے میں مدد دی جا سکتی ہے جس سے ناصرف معاشروں بلکہ معیشتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔