غزہ: یو این امدادی مرکز کے قریب بمباری میں درجنوں ہلاک

یو این بدھ 17 جولائی 2024 07:30

غزہ: یو این امدادی مرکز کے قریب بمباری میں درجنوں ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 جولائی 2024ء) غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی مرکز کے قریب اسرائیل کے متعدد حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ علاقے میں لڑائی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی اور ہزاروں لوگ جان بچانے کے لیے ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے بتایا ہے کہ یہ حملے وسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں ہوئے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کا ایک مرکز اس جگہ سے صرف 100 میٹر دور ہے۔

Tweet URL

نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حملوں اور تباہی کے باوجود امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم امدادی مرکز کے بالکل قریب حملے سے وہاں کام کرنے والے لوگوں کو لاحق خوف و خطرات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

نقل مکانی جاری

اسرائیل کی جانب سے غزہ کے لوگوں کو نقل مکانی کے احکامات دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

سٹیفن ڈوجیرک نے بتایا کہ ان میں بہت سے لوگوں کو گزشتہ نو ماہ کے دوران درجنوں مرتبہ اپنے ٹھکانے چھوڑ کر دوسری جگہوں کی جانب جانا پڑا ہے۔

اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ شمال میں غزہ شہر سے دیرالبلح کا رخ کر رہے ہیں جنہیں پانی، تیار کھانا، خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ کی ٹیمیں راستے پر تعینات کر دی گئی ہیں۔

ایندھن کی شدید قلت

ترجمان کا کہنا ہے کہ غزہ میں امدادی خدمات کی فراہمی کے لیے درکار ایندھن کی شدید قلت ہے۔ ایسے میں ہسپتالوں، ایمبولینس گاڑیوں، تنوروں اور امدادی ٹرکوں کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

غزہ میں روزانہ چار لاکھ لٹر پٹرول درکار ہے لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران علاقے میں مجموعی طور پر 80 ہزار لٹر ایندھن ہی آیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حکام نے تاحال مقامی امدادی اداروں کو ایندھن مہیا کرنے کی اجازت نہیں دی۔

'انرا' کی طبی خدمات

ایندھن اور ادویات کی قلت جیسے بے پایاں مسائل اور بہت سے طبی مراکز کی تباہی کے باوجود فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ (انرا) لوگوں کو ضرورت طبی خدمات مہیا کر رہا ہے۔

یو این نیوز کے زید طالب نے دیرالبلح میں واقع ادارے کے ایک کلینک کا دورہ کیا جہاں ان کی معتدد بے گھر لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے انہیں اپنے مصائب اور تکالیف سے آگاہ کیا۔

متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ اور رہن سہن کے مشکل حالات کے باوجود 'انرا' کے کلینک بہت سے لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مدد دے رہے ہیں جہاں مفت علاج معالجہ مہیا کیا جاتا ہے۔

© UNRWA
خواتین اور بچے غزہ کی جنگ میں بری طرح متاثر ہو رہے ہیں (فائل فوٹو)۔

بگڑتی صورتحال

'انرا' میں شعبہ اطلاعات عامہ کے ڈائریکٹر اناس ہمدان نے کہا ہےکہ غزہ میں بے گھر لوگ انتہائی مشکل حالات میں جی رہے ہیں۔ علاقے میں طبی صورتحال انتہائی المناک ہے کیونکہ متعدی بیماریاں خاص طور پر بچوں کو تیزی سے نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان بچوں میں اسہال، جلد کی بیماریاں، ہیپا ٹائٹس اور معدے کے امراض جنم لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی بڑی آبادی اس وقت خیمہ بستیوں میں مقیم ہے اور ایسی بیشتر جگہوں پر بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے طبی حالات دگرگوں ہیں۔

سرحدی راستے بند ہونے کی وجہ سے غزہ میں امداد لانا بہت مشکل ہو گیا ہے جبکہ علاقے میں پینے کے صاف پانی اور صحت و صفائی کے سامان کا فقدان ہے۔

بلا معاوضہ امدادی خدمات

دیرالبلح کے مشرقی علاقے میں مقیم پناہ گزین اشرف ابو مغصب کہتے ہیں کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں زیادہ تر لوگ طبی سہولیات کے لیے بڑی حد تک 'انرا' کے طبی مراکز پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں ادویات مفت ملتی ہیں جبکہ دیگر طبی مراکز پر انہیں ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون سے نقل مکانی کرنے والی حبا حسنین کا کہنا ہے کہ 'انرا' تمام شہریوں کو مفت علاج معالجہ مہیا کرتا ہے۔ اسی لیے سبھی اسی کے طبی مراکز کا رخ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد کو جلد کی بیماریوں، ہیپا ٹائٹس اور صحت و صفائی کی ناقص صورتحال کا سامنا ہے۔

شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ سے بے گھر ہونے والے انس اوتمان کہتے ہیں کہ علاقے میں بڑی تعداد میں مچھروں کی موجودگی اور نلکوں کے ذریعے آنے والے پانی کی عدم دستیابی کے باعث جلد کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خان یونس کے قریب ساحلی علاقے المواصی میں مقیم ہیں جہاں کیڑے مکوڑوں کی بہتات ہے جو لوگوں کو کاٹ کر جلدی امراض میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

UN News
’انرا‘ مشرق وسطیٰ میں 59 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کو تعلیم، صحت اور سماجی خدمات مہیا کرتا آ رہا ہے۔

'انرا'، زندگیوں کا ضامن

غزہ میں 'انرا' کے شعبہ صحت میں 700 سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت سے طبی مراکز میں تعینات ہیں جہاں وہ 10 مہینے سے لوگوں کو طبی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔

تاہم ان میں بہت سے کلینک جنگ میں تباہ ہو جانےکے باعث اب کام نہیں کر رہے۔ اگرچہ جنگ کے دوران طبی سازوسامان کی شدید قلت ہے لیکن اس کے ابوجود ادارے کے طبی مراکز پر لوگوں کو ضروری مدد کی فراہمی جاری ہے۔