بنگلہ دیش میں یونیورسٹی اساتذہ کا موجودہ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ ، عبوری حکومت قائم کرنے کی تجویز

پیر 5 اگست 2024 12:55

بنگلہ دیش میں یونیورسٹی اساتذہ  کا موجودہ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ ..
ڈھاکہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اگست2024ء) بنگلہ دیش میں یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم یونیورسٹی ٹیچرز نیٹ ورک نے ملک میں فوری طور پر مختلف طبقوں اور پیشوں کے لوگوں پر مشتمل عبوری حکومت بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔بنگلہ دیش کے معروف اخبارپروتھوم الو کی رپورٹ کے مطابق تنظیم کے عہدیداروں نے ایک پریس کانفرنس میں طلبا کے حکومت کے فوری مستعفی ہونے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اقتدار عبوری حکومت کے حوالے کریں۔

پریس کانفرنس میں ملک کی جمہوری منتقلی کے لیے پانچ نکاتی تجویز پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ابتدائی مرحلہ ہے اور نیٹ ورک اس تجویز کو مزید وسعت دینے کے لیے کام کرے گا۔ڈھاکہ یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ثمینہ لطفہ نے کہا کہ یونیورسٹی ٹیچرز نیٹ ورک بنگلہ دیش میں سرکاری اور نجی یونیورسٹی کے اساتذہ کا اتحاد ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ بنگلہ دیش کی امتیازی سلوک سے پاک جمہوری ملک میں منتقلی کا وقت ہے۔

اس تناظر میں اساتذہ کی جانب سے طلبہ کے حکومت کے مستعفی ہونے کے یک نکاتی مطالبے کی حمایت کی جارہی ہے۔تنظیم کے عہدیداران پروفیسر گیتیرہ نسرین، پروفیسر عبدالحسیب چوہدری، پروفیسر تنظیم الدین خان اور مشاہدہ سلطانہ نے پریس کانفرس کے دوران ایک تحریری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ملک ایک خوفناک دور کے ساتھ ساتھ غیر معمولی تخلیقی امکانات سے بھرپور وقت سے بھی گزر رہا ہے۔

عوام خوفناک جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ غیر معمولی مزاحمت بھی دیکھ رہے ہیں۔ ملک میں کئی بار عوامی احتجاج ہوا لیکن صرف دو سے تین ہفتوں میں اتنی اموات کبھی نہیں دیکھی گئیں ۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ تحریک اب صرف کوٹہ اصلاحات کے سوالات تک محدود نہیں ہے۔ جولائی میں ہونے والے احتجاج کے دوران مارے جانے والوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے والی طلبہ اور عوام کی تحریک عوامی احتجاج میں بدل چکی ہے۔

سٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمیشن (ایس اے ڈی) کا9 نکاتی مطالبہ اب شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے استعفیٰ کے ایک نکتے پر آ چکا ہے اور یونیورسٹی ٹیچرز نیٹ ورک طلبا کے حکومت کے فوری استعفیٰ کے یک نکاتی مطالبے کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔پروفیسر انو محمد نے یونیورسٹی ٹیچرز نیٹ ورک کی جانب سے ملک میں عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے مجوزہ حکومت کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر ذات، مذہب، جنس اور طبقے کے نمائندوں پر مشتمل عبوری حکومت فوری طور پر تشکیل دی جائے جس میں اساتذہ، ججز، وکلا اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہوں اور یہ حکومت ملک گیر احتجاج کرنے والے طلبہ اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ اس عبوری حکومت کے ارکان کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کریں اور موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اس حکومت کو اقتدار منتقل کر دیں۔انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت کے ساتھ ایک شیڈو حکومت تشکیل دی جائے جس میں طلبہ اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے نمائندے بھی شامل ہوں تاکہ وہ اس عبوری حکومت کے احتساب اور شفافیت کو یقینی بنائیں اور ملک میں جمہوری انتخابات کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو۔

ایسی شیڈو حکومت جمہوری طور پر منتخب حکومت کے دوران بھی جاری رہ سکتی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ عبوری حکومت اقوام متحدہ کی مدد سے ایک خصوصی ٹربیونل اور تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے جو جولائی میں ہونے والے قتل و غارت گری کے ذمہ دار افراد کے خلاف مقدمہ چلائے ۔ حال ہی میں دائر کئےگئے مقدمات کو منسوخ کیا جائے اور ان مقدمات میں زیر حراست تمام افراد کو رہا کیا جائے ، حکومت بنانے کے 6 ماہ کے اندر آئینی اسمبلی کی تشکیل کے لیے انتخابات کا انعقاد کرایا جائے اورمنتخب آئینی اسمبلی ایک جمہوری آئین تشکیل دے جس میں کوئی آمرانہ، فرقہ وارانہ اور امتیازی عوامل شامل نہ ہوں اور اس آئین کی بنیاد پر حکومت اگلے عام انتخابات کا انعقاد کرے۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر انو محمد نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں رہنے سے حالات مزید خراب ہوں گے اور حکومت جتنی جلدی استعفیٰ دے گی، یہ ملک اور خود حکومت کے لیے بہتر ہوگا۔انہوں نےاس امید کا اظہار کیا کہ حکومت مزید مسائل پیدا کیے بغیر جلد مستعفی ہو جائے گی۔