Live Updates

سیاست دانوں میں جیل سے فرار ہونے کا سب سے زیادہ تجربہ نواز شریف رکھتے ہیں

قائد ن لیگ اٹک قلعہ سے فرار ہو چکے ہیں کوٹ لکھپت سے بھی، لیکن اتنی مرتبہ فرار ہونے کے بعد اب وہ اپنے گھر جاتی امرا میں بھی اپنے آپ کو قیدی سمجھتے ہوں گے کہ اب فرار ہوں گے تو کہاں جائیں گے؟ بی بی سی اردو کا آرٹیکل

muhammad ali محمد علی بدھ 4 ستمبر 2024 22:09

سیاست دانوں میں جیل سے فرار ہونے کا سب سے زیادہ تجربہ نواز شریف رکھتے ..
لندن/اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 ستمبر 2024ء ) معروف برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی اُردو لکھتا ہے کہ سیاست دانوں میں جیل سے فرار ہونے کا سب سے زیادہ تجربہ نواز شریف رکھتے ہیں ، قائد ن لیگ اتنی مرتبہ فرار ہونے کے بعد اب وہ اپنے گھر جاتی امرا میں بھی اپنے آپ کو قیدی سمجھتے ہوں گے کہ اب فرار ہوں گے تو کہاں جائیں گے؟۔ بی بی سی اردو سے منسلک صحافی و تجزیہ کار محمد حنیف نے لکھا ہے کہ پاکستان کے سب سے مشہور قیدی عمران خان ہیں اور کسی زمانے میں پاکستان کی سب سے سخت جیل مچھ جیل سمجھی جاتی تھی لیکن آج کل اڈیالہ ہے جہاں پر جیلروں کو قیدی سے ہنس کر بات کرنے پر غائب کر دیا جاتا ہے اور قیدی کا جذبہ ایسا ہے کہ آپ کو ان کی سیاست سے لاکھ اختلاف ہو لیکن ان کے جذبے سے ان کے سیاسی مخالف بھی تنگ ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے تحریر کیا ہے کہ جس طرح عمران خان نے پاکستان کی سیاست میں نئے انداز متعارف کرائے ہیں اسی طرح انہوں نے اڈیالہ جیل سے فرار کا انوکھا منصوبہ سوچا ہے کہ وہ آکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑیں گے، منصوبہ یہ نہیں کہ عمران خان اڈیالہ جیل سے سرنگ کھودنا شروع کریں گے اور ایک دن آکسفرڈ کے چانسلر کے دفتر میں نمودار ہوں گے، وہ رہیں گے جیل میں ہی اور جیسا کہ ان کے جان نثار سمجھتے ہیں، جیل میں رہتے ہوئے مضبوط سے مضبوط تر اور مقبول سے مقبول تر ہوتے جائیں گے لیکن چانسلر کا الیکشن لڑنے سے ان کا نام مغربی دارالحکومتوں میں ایک بار پھر گونجے گا۔

بی بی سی اُردو کا لکھنا ہے کہ سچی بات تو یہ ہے عمران خان کے الیکشن میں اترنے سے پہلے نہ پاکستانیوں کو اور نہ زیادہ تر انگلستانیوں کو علم تھا کہ آکسفرڈ کے چانسلر کا کوئی الیکشن بھی ہوتا ہے، گوروں کے ایک قدیم ادارے کے بھولے بسرے انتخاب میں شامل ہونے کا اعلان کرکے عمران خان نے اس میں جان ڈال دی ہے، ان کے اعلان کے ساتھ ہی سب کو چانسلر کے الیکشن کا ایسے ہی پتا چل گیا جیسے اب بچے بچے کو الیکشن فارم 45 اور الیکشن فارم 47 کے بارے میں پتا ہے۔

محمد حنیف لکھتے ہیں کہ آکسفرڈ کے چانسلر کے الیکشن سے سب کو یاد آئے گا کہ عمران خان ایک شہرہ آفاق کرکٹر تھے، ان کے مداحوں کو لندن کی پارٹیاں، شاہی خاندان کے ساتھ ملاقاتیں اور سابقہ شریک حیات جمائمہ خان کے ساتھ تصویریں دوبارہ شیئر کرنے کا موقع ملے گا، ان کے کینسر ہسپتال کا ذکر آئے گا، یہ بات بھی یاد آئے گی کہ وہ پاکستان کے سابق وزیراعظم بھی ہیں اور اب ان پر مضحکہ خیز قسم کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔

آرٹیکل میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ چانسلر کے انتخاب کے لیے عمران خان کے علاوہ کسی دوسرے امیدوار کا نام بھی شاید آکفسرڈ سے باہر لوگ نہیں جانتے لیکن الیکشن الیکشن ہوتا ہے، گمنام امیدوار بھی اپنا زور لگائیں گے، ایک برطانوی صحافی نے ایک کالم میں عمران خان کے خلاف انتخابی مہم کا محاذ کھول دیا جن کے الزامات وہی پرانے ہیں، سلمان رشدی کے ساتھ ایک سٹیج پر بیٹھنے سے انکار، طالبان اور اسامہ کے لیے نرم گوشہ اور عورتوں کے بارے میں فرسودہ خیالات کی ان باتوں سے آکسفرڈ کے الیکشن میں پتا نہیں ان کے کتنے ووٹ ٹوٹے گیں لیکن پاکستان میں یقیناً بڑھیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے تحریر کیا ہے کہ آکسفرڈ کے چانسلر کے انتخاب کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن اس سے دنیا کو یاد آئے گا کہ عمران خان ایک سیاسی قیدی ہیں، سیاسی قیدی جیل کی سختی برداشت کر لیتا ہے لیکن گمنامی نہیں تو عمران خان ایک بار پھر مغربی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوں گے، جو بھی سیاست دان پاکستان کی کسی جیل سے فرار چاہتا ہے اس کی سرنگ کا راستہ جی ایچ کیو سے ہو کر جاتا ہے لیکن عمران خان اپنا راستہ خود بنانے پر مصر ہیں۔

صحافی و تجزیہ کار کا خیال ہے کہ شاید وہ پہلے فرار ہونے والے قیدیوں کا انجام دیکھ چکے ہیں، سیاست دانوں میں جیل سے فرار ہونے کا سب سے زیادہ تجربہ نواز شریف رکھتے ہیں جو اٹک قلعہ سے فرار ہو چکے ہیں، کوٹ لکھپت سے بھی لیکن اتنی مرتبہ فرار ہونے کے بعد اب وہ اپنے گھر جاتی امرا میں بھی اپنے آپ کو قیدی سمجھتے ہوں گے اب فرار ہوں گے تو کہاں جائیں گے؟ دوسری طرف عمران خان اپنی سرنگ کھود رہے ہیں اور کوئی جیلر روک بھی نہیں سکتا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات