اموات کی روک تھام کے لیے ویکسین کی تیاری و تقسیم پر سرمایہ کاری ضروری

یو این جمعہ 11 اکتوبر 2024 01:45

اموات کی روک تھام کے لیے ویکسین کی تیاری و تقسیم پر سرمایہ کاری ضروری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اکتوبر 2024ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ویکسین کی تیاری اور تقسیم پر مزید سرمایہ کاری کی بدولت جراثیم کش ادویات کے خلاف جراثیمی مزاحمت (اے ایم آر) سے ہونے والی اموات کو روکا جا سکتا ہے۔

ادارے کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ویکسین 'اے ایم آر' میں کمی لانے کی عالمگیر کوششوں میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

ان سے انفیکشن کی روک تھام میں مدد ملتی ہے، ان کی بدولت جراثیم کش ادویات کے استعمال اور حد سے زیادہ استعمال میں کمی آتی ہے اور ادویہ کے خلاف مزاحم جرثوموں کے ظہور اور پھیلاؤ کی رفتار میں کمی لانا آسان ہو جاتا ہے۔

'اے ایم آر' اس وقت سامنے آتی ہے جب بیکٹیریا، وائرس، فنگی اور طفیلیے وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر طاقت پکڑ لیتے ہیں اور ان پر ادویات اثر نہیں کرتیں۔

(جاری ہے)

یہ عالمگیر صحت عامہ و ترقی کے لیے بہت بڑے خطرات میں سے ایک ہے اور ہر سال تقریباً 50 لاکھ اموات اسی سبب سے ہوتی ہیں۔ جراثیم کش ادویات کا غلط اور حد سے زیادہ استعمال 'اے ایم آر' میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے میں اس مسئلے پر یو این نیوز کی براہ راست کوریج یہاں دیکھیے۔

ویکسین کی طاقت

رپورٹ کے مطابق، 24 جرثوموں کے خلاف ویکسین کے استعمال سے جراثیم کش ادویات کی ضرورت میں 22 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

یہ تعداد ان ادویہ کی روزانہ 2.5 ارب خوراکوں کے برابر ہے۔ اس طرح 'اے ایم آر' کے مسئلے سے نمٹنے کی بین الاقوامی کوششوں میں مدد مل سکتی ہے۔

اگرچہ ان میں بعض ویکسین پہلے ہی موجود ہیں لیکن ان کا زیادہ استعمال نہیں ہوتا۔ دیگر کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے اور جلد از جلد مارکیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت سے نمٹنے کا آغاز انفیکشن کی روک تھام سے ہوتا ہے اور ویکسین اس مقصد کے لیے سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار ہیں۔

© WHO/Sarah Pabst
وینزویلا کی طبی تجربہ گاہ میں جرثموں میں وقت کے ساتھ ویکسین اور ادویات کے خلاف مزاحم ہونے کے رحجان پر تحقیق کی جا رہی ہے۔

اموات کی روک تھام

ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہےکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ زندگیوں کو تحفظ دینے اور 'اے ایم آر' کی لہر کو روکنے کے لیے موجود ویکسین تک رسائی بڑھانا اور تپ دق جیسی خطرناک بیماریوں کے خلاف نئی ویکسین تیار کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ ویکسین لگواتے ہیں ان کے بیمار پڑنے کا خدشہ بہت کم رہ جاتا ہے۔ ایسے لوگ کسی بیماری کے ثانوی اثرات سے ممکنہ طور پر جنم لینے والی پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں جو لاحق ہونے کی صورت میں انہیں جراثیم کش ادویات سے رجوع کرنا یا ہسپتال میں داخل ہونا پڑ سکتا ہے۔

ادارے کا کہنا ہےکہ ہر سال بچوں اور نوعمر افرادکو سٹریپٹوکوکس نمونیہ کے خلاف ویکسین دے کر جراثیم کش ادویات کی 33 ملین خوراکوں کی بچت کی جا سکتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوموکوکس نمونیہ، ہیموفیلس انفلوئنزا ٹائپ بی (ایچ آئی بی) اور ٹائیفائیڈ کے خلاف پہلے سے ہی زیراستعمال ویکسین ہر سال 'اے ایم آر' سے ہونے والی تقریباً 106,000 اموات کو روک سکتی ہیں۔

تپ دق (ٹی بی) اور کلیبسیلا نمونیہ کے خلاف نئی ویکسین کی تیاری اور ان کی دنیا بھر میں تقسیم سے ہر سال مزید 543,000 اموات کی روک تھام ممکن ہے۔

'اے ایم آر' کے خلاف سیاسی اعلامیہ

ویکسین کی بدولت 'اے ایم آر' کے ذریعے ہونے والے معاشی نقصان میں بھی نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر کے ہسپتالوں میں 'اے ایم آر' سے پیدا ہونے والے طبی مسائل پر قابو پانے کے لیے سالانہ 730 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

ویکسین کے استعمال کی بدولت اس میں ایک تہائی رقم بچائی جا سکتی ہے۔

ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کے دوران عالمی رہنماؤں نے ایک سیاسی اعلامیے کی منظوری دی تھی۔ اس میں 'اے ایم آر' کے خلاف اقدامات کے حوالےسے واضح اہداف طے کیے گئے جن میں جراثیمی مزاحمت کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں 2030 تک سالانہ 10 فیصد کمی لانا بھی شامل تھا۔

اس اعلامیے میں ویکسین، ادویات، علاج معالجے اور تشخیص کی اہمیت اور 'اے ایم آر' پر قابو پانے کے لیے تحقیق و اختراع میں مدد دینے کے طریقوں کے لیے مالی وسائل کی ضرورت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔