ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کے جنسی استحصال میں اضافہ، رپورٹ

یو این ہفتہ 12 اکتوبر 2024 01:45

ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کے جنسی استحصال میں اضافہ، رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 اکتوبر 2024ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیجیٹل ماحول میں بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور استحصال میں شدت آ گئی ہے اور ہر سال تیس کروڑ سے زیادہ بچے اس کا نشانہ بنتے ہیں۔

بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ماما فاطمہ سنگھاتا نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی بچوں کے حقوق برقرار رکھنے اور انہیں تحفظ دینے کے لیے بہت سے مواقع لائی ہے۔

تاہم، اس کی تیزرفتار، تبدیل ہوتی اور غیرمعمولی صلاحیتوں سے بچوں کے لیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔

انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو اس مسئلے پر پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پہلے سے موجود اور نئی ٹیکنالوجی کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے سے بچوں کو لاحق کئی طرح کے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات

رپورٹ کے مطابق، موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، رضامندی کے بغیر ان کی تصاویر اور ویڈیو حاصل کرنے، بچوں سے جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد کی تیاری، انہیں جنسی طور پر بلیک میل کر کے تاوان لینے اور ان سے جنسی بد سلوکی کے مناظر انٹریٹ پر براہ راست دکھانے جیسے جرائم کا ارتکاب عام ہو گیا ہے۔

ڈیپ فیک، عام تصاویر کو جعلسازی سے برہنہ دکھانے اور ان میں عمر کو گھٹا اور بڑھا کر ظاہر کرنے کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، مواد کو سرور کے بغیر براہ راست ایک دوسرے تک منتقل کرنے اور ویڈیو میں آواز کو تبدیل کرنے جیسے طریقوں سے بھی بچوں کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔

ماما فاطمہ کا کہنا ہے اس مسئلے سے نمٹنے کے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو موجودہ عدم مساوات کے ہوتے ہوئے یہ مزید بگڑ جائے گا۔

اس کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کی پامالیاں بڑھ جائیں گی جبکہ غیرمحفوظ اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے اس سے خاص طور پر متاثر ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں منظور کردہ بین الاقوامی ڈیجیٹل معاہدہ آن لائن دنیا میں سبھی لوگوں اور خاص طور پر بچوں کو تحفظ دینے کے لیے حکومتوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقدامات کے حوالے سے عالمگیر عزم کو تقویت دیتا ہے۔

حکومتوں اور کمپنیوں کے لیے سفارشات

ماما فاطمہ نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ ایسے قانونی نظام کو مضبوط بنائیں جن سے ان عناصر کو سزا مل سکے جو ڈیجیٹل ماحول کو بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے اقدامات کی نگرانی کے لیے موثر قومی طریقہ ہائے کار کا قیام بھی ضروری ہے۔

خصوصی اطلاع کار نے ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ انہیں عمر کی تصدیق، انٹرنیٹ پر بچوں کے لیے دستیاب مواد کی نگرانی اور مسائل کی صورت میں بچوں کو مدد دینے کے طریقوں پر بھی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

ان کمپنیوں کے لیے کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق رہنما اصولوں کی تعمیل کرنا بھی ضروری ہے۔

خصوصی اطلاع کار نے تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ فیصلہ سازی اور تکنیکی ضوابط سازی میں بچوں کی شرکت یقینی بنائیں۔

ماہرین و خصوصی اطلاع کار

غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔