)فاٹا انضمام غیر آئینی و غیر قانونی ہوا ہے،قبائلی عوام اس انضمام کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے،فاٹا انضمام مخالف تحریک کو مزید موثر و منظم بنانے و تحریکی ڈھانچے کی ترتیب کے لئے ملک بسم اللہ خان آفریدی کو متفقہ طور پر مشر (صدر) چن لیا گیا

ہفتہ 18 جنوری 2025 20:15

Nپشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 جنوری2025ء)فاٹا انضمام غیر آئینی و غیر قانونی ہوا ہے،قبائلی عوام اس انضمام کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے،فاٹا انضمام مخالف تحریک کو مزید موثر و منظم بنانے و تحریکی ڈھانچے کی ترتیب کے لئے ملک بسم اللہ خان آفریدی کو متفقہ طور پر مشر (صدر) چن لیا گیاتفصیلات کے مطابق حاجی رحیم آفریدی کے مارکیٹ کارخانوں میں فاٹا انضمام مخالف تحریک کے لئے بنائی گئی تمام 7 ایجنسیوں اور 6 ایف ارز سے 48 رکنی کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ فاٹا انضمام ایک غیر آئینی و غیر قانونی اقدام ہوا ہے جسکو قبائلی عوام کسی صورت قبول نہیں کرینگے اور انضمام مخالف تحریک اس وقت تک جاری رکھے گے کہ جب تک قبائلی عوام کو انصاف نہیں ملتا اور غیر آئینی و غیر قانونی فاٹا انضمام کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی جاتی اور غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کو واپس نہیں کیا جاتا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فاٹا انضمام مخالف تحریک کو مزید تیز،موثر اور تحریک کا ڈھانچے مرتب کرنے کے لئے تمام قبائلی اضلاع بشمول ایف ارز سے بنی 48 رکنی کمیٹی نے متفقہ طور پر ملک بسم اللہ خان آفریدی کو ایک سال کے لئے مشر (صدر) چن لیا جو کہ فاٹا انضمام مخالف تحریک کی کامیابی کے لئے تین کمیٹیاں تشکیل دینگے جس میں تنظیمی کمیٹی،فنانس کمیٹی اور میڈیا و سوشل میڈیا کمیٹی شامل ہونگی تاکہ فاٹا انضمام مخالف تحریک کو نئے انداز و عزم کے ساتھ مزید موثر کیا جائے۔

نو منتخب مشر (صدر) ملک بسم اللہ خان آفریدی سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کیس کی جلد سماعت کے حوالے سے وکلاء سے ملاقاتیں کرینگے اور کمیٹیوں کی تشکیل کے لئے اگلے یکم تاریخ کو اجلاس طلب کرینگے۔اجلاس سے خطاب میں ملک خان مرجان،ملک بسم اللہ خان آفریدی، ملک زیارت گل مومند، نواب زادہ فضل کریم،ملک نائب خان،ملک عبدالرازق آفریدی، حاجی رحیم آفریدی،افراسیاب آفریدی سمیت دیگر مشران نے کہاکہ فاٹا انضمام فقط قبائلی عوام کے معدنیات اور وسائل پر قبضہ ہے کیونکہ فاٹا انضمام کے بعد ان 7 سالوں میں قبائلی عوام جتنے خوار و ذلیل ہوئے ہیں اسکی مثال ملنا ناممکن ہے۔

انضمام کے بعد حکومت و انتظامیہ کرم میں امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔قبائلی اضلاع میں دہشت گردی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ملکی ادارے،حکومت و انتظامیہ امن و امان کے قیام ناکام ہے۔انضمام سے قبل قبائلی مشران کا ایک مضبوط جرگہ سسٹم ہوا کرتا تھا جسکا فیصلہ من و عن تسلیم کیا جاتا تھا۔اب بھی قبائلی مشران ریاستی اداروں و حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہوش کے ناخن لے اور قبائلی عوام پر رحم کرے۔

انضمام کا ظالمانہ فیصلہ واپس کرکے قبائلی مشران کو بااختیار کرے تاکہ قبائلی و پختون بیلٹ میں امن قائم ہوسکے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان قبائلی عوام کا مقدمہ سن کر انصاف پر مبنی فیصلہ کرے تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہوسکے۔انضمام کو قبائلی عوام نے شروع دن سے مسترد کیا ہے اور اس وقت تک مسترد کرتے رہینگے کہ جب تک قبائلی عوام کی نہیں سنی جاتی اور انضمام کے ظالمانہ فیصلے کو واپس نہیں کیا جاتا۔قبائلی مشران کی انضمام مخالف تحریک پرامن طریقے سے جاری رہیگی۔