شام کے علوی کون ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 8 مارچ 2025 19:20

شام کے علوی کون ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) شام میں بحیرہ روم کا ساحل ملک کی علوی اقلیت کا ایک گڑھ ہے، جو شیعہ اسلام کے پیروکار ہیں اور سنی اکثریتی آبادی والے ملک شام کی مجموعی آبادی کے نو فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔ معزول شامی صدر بشار الاسد کا تعلق بھی علوی برادری سے ہے، ان کی معزول حکومت کے سکیورٹی اور فوجی ڈھانچے میں غیر متناسب نمائندگی کے ذریعے علویوں کو ان کے حصے سے کئی زیادہ نمائندگی دی گئی تھی۔

اسد خاندان کی پانچ دہائیوں پر مشتمل آمرانہ حکومت کے دور میں شہریوں کو قید کرنا ان پر تشدد اور قتل و غارت عام تھی۔

الاذقیہ اور طرطوس کے ساحلی علاقوں میں اب بھی شامی فوج کے ایسے عناصر موجود ہیں، جو اسد خاندان کے ساتھ وفادار ہیں، نیز نئے عبوری صدر شراع اور اس کے باغی اسلام پسند گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی طرف سے برطرف کیے گئے سرکاری ملازمین اور دیگر سابق حکومتی اہلکار بھی یہیں موجود ہیں۔

(جاری ہے)

انڈیپینڈینٹ ریسرچ فاؤنڈیشن سنچری انٹرنیشنل سے منسلک آرون لونٹ کے مطابق عبوری حکومت کے فوجیوں کی جانب سے کی جانے والی مہلک انتقامی کارروائیوں نے نئی حکومت کی ''کمزوری‘‘ کو ظاہر کر دیا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''دونوں فریقوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ حملے کی زد میں ہیں، دونوں فریقوں کو دوسرے فریق کے ہاتھوں خوفناک زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور دونوں فریق مسلح ہیں۔

‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''نئی حکومت کا اختیار زیادہ تر بنیاد پرست جہادیوں پر ہے، جو علویوں کو خدا کا دشمن سمجھتے ہیں۔‘‘ لونٹ نے وضاحت کی، "جب بھی کوئی حملہ ہوتا ہے، تو عبوری حکومت سے منسلک گروہ علوی دیہاتوں پر چھاپے مارتے ہیں، جن میں نہ صرف مسلح سابق فوجی ہوتے ہیں بلکہ عام نہتے شہری بھی ہوتے ہیں۔‘‘

ش ر⁄ ع ب ( اے ایف پی)