سگریٹ نوشی کے نقصانات کے حوالے سے اسموکرز سے ایک میٹنگ کا انعقاد

نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے رجحان سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ وہ اکثر کم عمری میں سگریٹ نوشی کا شکار ہو جانے سے ان کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں

اتوار 6 اپریل 2025 21:50

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 اپریل2025ء) آلٹرنیٹیو ریسرچ انیشیٹیو)اے آر آئی(اور ممبر تنظیم ہیومنٹرین فار آرگنائزیشن سسٹین ایبل ڈپارٹمنٹ پاکستان کی کی جانب سے سگریٹ نوشی کے نقصانات کے حوالے سے اسموکرز سے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں اسموکرز، سول سوسائٹی کے نمائندے، طلبا، مزدور پیشہ افراد شامل تھے۔

رومس بھٹی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمباکو نوشی جو کہ تیزی سے انسان کی زندگی کا خاتمہ کر رہی ہے، انہوں نے سگریٹ نوشی کے نقصانات میں بڑا نقصان امراض قلب، فالج، ذہنی صحت کے مسائل، پھپھڑوں کی بیماری، خراب مسوڑھے، ہڈیوں کی بیماری، جلد کی سوزش، زخم بھرنے میں تاخیر، تولیدی صحت کے مسائل، جسم کے مختلف حصوں میں کینسر، ذیابطیس شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے رجحان سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ وہ اکثر کم عمری میں سگریٹ نوشی کا شکار ہو جانے سے ان کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک میں تین کروڑ دس لاکھ افراد مختلف شکلوں میں تمباکو استعمال کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہر پانچ میں سے دو سگریٹ نوش دس سال سے کم عمر میں سگریٹ پینا شروع کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جوانوں کی سگریٹ نوشی کو بڑے ہونے کی ایک عام علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایک ایسی عادت کو بغیر کسی تشویش کے قبول کر لیا جاتا ہے جو زندگی بھر صحت کے مسائل کا باعث بنتی ہے، انہوں نے تمباکو نوشی کے مضر صحت اثرات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی پھیلانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسکولوں اور کمیونٹیز میں جامع تعلیمی پروگرام بھی اس مہم کا حصہ ہونے چاہئیں۔

اس موقع پر اسموکرز نے بتایا کہ سگریٹ کے نقصانات کے حوالے سے ہر شخص کو آگاہی حاصل ہے لیکن وہ سگریٹ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ آج کی اس میٹنگ میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری پوری کوشش ہو گی کہ سگریٹ نوشی کو ترک کر سکیں، اپنی اس عادت کو چھوڑنے کی کوشش کرنے والے افراد کی مدد کے لئے کونسلنگ اور تمباکو نوشی ترک کرنے کی خدمات و سہولتوں تک رسائی پر مشتمل مضبوط نظام بنانے چاہئیں، رومس بھٹی نے کہا کہ والدین، ماہرین تعلیم و صحت، پالیسی سازوں اور سماجی رہنماں کو سگریٹ نوشی سے پاک پاکستان بنانے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیے۔