ریگولیٹری اتھارٹیز پر رائٹ سائزنگ پالیسی کا اطلاق نہیں ہوگا ، خودمختار اداروں پر رائٹ سائزنگ کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے،سیکرٹری کابینہ ڈویژن کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کوبریفنگ

بدھ 16 اپریل 2025 22:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اپریل2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کوبتایاگیاہے کہ ریگولیٹری اتھارٹیز پر رائٹ سائزنگ پالیسی کا اطلاق نہیں ہوگا تاہم ان سے مشیروں، عملے کی تعداد اور تنخواہوں کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، خودمختار اداروں پر رائٹ سائزنگ کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے،رائٹ سائزنگ کمیٹی کی کارکردگی کی باقاعدہ نگرانی کی جا رہی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس بدھ کویہاں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں جون 2024 سے مارچ 2025 تک کی مدت پر مشتمل کمیٹی کی سالانہ رپورٹ پیش کی گئی۔اجلاس میں سینیٹر ذیشان خانزادہ کی جانب سے 17 فروری 2025 کو سینیٹ اجلاس میں پیش کیے گئے نجی بل" انکم ٹیکس (ترمیمی) بل 2025"کو حتمی شکل دینے پر تفصیلی غور کیا گیا اور یہ اعتراضات زیر بحث آئے کہ آیا اسے مالیاتی بل (منی بل) کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے یا نہیں۔

(جاری ہے)

اراکین نے اس بات پر غور کیا کہ کیا بل میں ضروری ترامیم شامل کر کے اسے بغیر منی بل قرار دیئے منظور کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ بل براہ راست ٹیکسیشن میں مداخلت نہیں کرتا، مزید وضاحت کے لیے کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین کو طلب کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا تاکہ بل کو حتمی شکل دینے سے قبل ان کی رائے لی جا سکے۔

اجلاس میں کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری نے کمیٹی کو حکومتی اداروں کی رائٹ سائزنگ پالیسی پر بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے وفاقی حکومت کے حجم میں کمی کی ہدایت دی ہے تاکہ کارکردگی میں بہتری آئے اور حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ دے سکے، اس عمل کے تحت ادارہ جاتی اصلاحات کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت ہے کہ وفاقی حکومت صرف اپنی اصل ذمہ داریوں تک محدود ہو، جبکہ اضافی اختیارات اور ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی تجارتی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ ان کی افادیت اور ضرورت کا تعین کیا جا سکے۔ سیکریٹری نے وضاحت کی کہ ریگولیٹری اتھارٹیز پر رائٹ سائزنگ پالیسی کا اطلاق نہیں ہوگا تاہم ان سے مشیروں، عملے کی تعداد اور تنخواہوں کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ خودمختار اداروں پر رائٹ سائزنگ کے ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ رائٹ سائزنگ کمیٹی کی کارکردگی کی باقاعدہ نگرانی کی جا رہی ہے اور شفافیت و جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان نے حکومتی اصلاحات کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رائٹ سائزنگ پالیسی سے سرکاری ملازمین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انہوں نے استفسارکیاکہ جو افراد قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور ہوں گے، ان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

اس پر کابینہ کے سیکرٹری نے اعتراف کیا کہ رائٹ سائزنگ کا فیصلہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ریاست کے لیے خاطر خواہ بچت کا باعث بنے گا۔ غیر ضروری آسامیوں کے خاتمے سے اب تک نمایاں مالی فوائد حاصل ہو چکے ہیں۔ یہ اقدامات حکومت کے مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کو موثر بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ میں نئے وزراء کی شمولیت کا مقصد وزارتوں کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، جو ادارہ جاتی اصلاحات کے بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اجلاس میں مالیاتی نظم و ضبط اور انتظامی مؤثریت کے درمیان توازن قائم کرنے کی پیچیدگیوں اور بڑے پیمانے پر اصلاحات کے چیلنجز کو تسلیم کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی اور دیگر اراکین نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس معاملے کا تفصیلی، شعبہ وار جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ اجلاس میں مزید بحث کی جائے گی۔ اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز، سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر فیصل واوڈا، سینیٹر ذیشان خانزادہ اور سینیٹر انوشہ رحمان ،کابینہ ڈویژن اور وزارت خزانہ و محصولات کے سیکرٹریز سمیت متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔