کمپیٹیشن کمیشن کی انشورنس انڈسٹری میں مسابقت کی صورتحال پر رپورٹ جاری، اصلاحات کی سفارش

جمعرات 17 اپریل 2025 17:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اپریل2025ء) کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان کی انشورنس مارکیٹ میں مسابقت کی صورتحال پر اپنی جامع رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں سیکٹر کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی اور اصلاحات کے لئے اہم سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ کمپٹیشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں دنیا بھر میں انشورنس کی کل پریمیئم ویلیو 7.4 ٹریلین امریکی ڈالر تھی اور عالمی سطح پر انشورنس کی اوسط شرح 6.7 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ پاکستان میں یہ شرح صرف 0.87 فیصد ہے۔

اس کے برعکس بھارت اور چین میں انشورنس کی شرح جی ڈی پی کے چار فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان میں انشورنس ڈینسٹی 2022 میں صرف 14 ڈالر (تقریباً 2000 روپے)تھی جبکہ بھارت میں یہ 82 ڈالر تھی۔ سال 2022 میں 24 کروڑ سے زائد کی آبادی میں صرف 78 لاکھ لائف انشورنس پالیسیاں فروخت ہوئیں جو کہ کل آباد کا صرف 3 فیصد ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر کبیر احمد سدھو نے اس حوالے سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں انشورنس کا شعبہ ایک لازمی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس شعبے کی ترقی کی راہ میں اجارہ داری کے رجحانات اور قانون میں شامل ریگولیٹری تحفظ پسند پالیسیاں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ میں مسابقت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لئے اہم اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے اور معیشت کو وسیع پیمانے پر فائدہ پہنچانے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ابتدا سے وفاقی وزارت تجارت ملک میں انشورنس کے شعبے سے متعلق پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کی ذمہ دار ادا کر رہی ہے تاہم سال 2000 میں انشورنس آرڈیننس 2000 کے نفاذ کے کے بعد انشورنس انڈسٹری کی ریگولیٹری نگرانی سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو منتقل کردی گئی۔

کمپٹیشن کی رپورٹ کے مطابق 1972 میں لائف انشورنس انڈسٹری کو قومیانے سے لائف انشورنس سیکٹر میں سرکاری اجارہ داری کی ابتدا ہوئی۔ 1991 میں انڈسٹری کی لبرلائزیشن کے باوجود مارکیٹ کے اطوار میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ نجی شعبے کو لائف انشورنس کی اجازت دینے کے باوجود، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن (ایس ایل آئی سی) 55 فیصد شیئر کے ساتھ مارکیٹ پر غلبہ رکھتی ہے ۔

سٹیٹ لائف انشورنس (نیشنلائزیشن) آرڈر 1972 کے سیکشن 35 کے تحت حاصل سرکاری خودمختار گارنٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسٹمرز کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ری انشورنس پروکیورمنٹ پر عائد پابندیاں بھی مسابقت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ انشورنس رولز 2017 کے رول 18(1) کے تحت انشورنس کمپنیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیرملکی فراہم کنندگان سے فیکلٹیٹو ری انشورنس کے حصول سے قبل سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سے اجازت لیں۔

یہ قانونی پابندی کمپنیوں کی بین الاقوامی کمپیٹیٹو مارکیٹس تک رسائی کو محدود کرتی ہے اور اس سے مقامی انشورنس کمپنیوں کے لئے رسک مینجمنٹ کے آپشنز بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔رپورٹ میں بینکاشورنس شعبے کے مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، جہاں انشورنس پالیسیاں بینکوں کے ذریعے فروخت کی جاتی ہیں۔ بعض بینکاشورنس کمپنیوں پر اپنی کاروباری پالیسیوں کے مطابق پابندیاں لگاتے ہیں، جس سے ان کی کاروبار کی صلاحیت کو محدود کیا جاتا ہے۔

مزید برآں، صارفین کو اکثر پالیسی کی شرائط و ضوابط کے بارے میں صحیح طور پر مطلع نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے صارفین کو بنک انشورنس کی گمراہ کن سیلز کی جاتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنازعات کے حل میں دائرہ اختیار کا معاملہ مزید الجھاو پیدا کرتا ہے۔ نجی بیمہ کمپنیوں کے خلاف شکایات وفاقی انشورنس محتسب (ایف آئی او) کے تحت آتی ہیں، جب کہ سرکاری انشورنس کمپنیوں جیسا کہ ایس ایل آئی سی اور پوسٹل لائف کے معاملات وفاقی محتسب کے زیر انتظام ہیں۔

یہ تقسیم پالیسی ہولڈرز میں الجھن اور کیس کے حل میں تاخیر کا باعث بنتی ہے۔انشورنس سیکٹر میں ٹیکس کے مسائل سے بھی بیمہ کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک طرف پالیسی ہولڈر انشورنس پریمیئم پر صوبائی سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں تو دوسری جانب انشورنس کمپنیاں ری انشورنس کے مرحلے پر اضافی سیلز ٹیکس وصول کرنے کی پابند ہیں، یعنی پالیسی ہولڈرز سے ایک ہی پریمیئم پر دو بار ٹیکس لیا جاتا ہے، جس سے انڈسٹری پر مالی بوجھ بڑھتا ہے اور انشورنس زیادہ مہنگی ہو جاتی ہے۔

اسی طرح، انشورنس موٹر وہیکلز ایکٹ 1939 کے سیکشن 94 کے تحت قانونی طور پر لازمی ہونے کے باوجود ملک میں تھرڈ پارٹی موٹر انشورنس کی شرح بھی نہایت ہی کم ہے۔ قانون پر عملدرآمد نہ ہونے، تصدیق کے مرکزی نظام کی عدم موجودگی اور قانون سے عام لاعلمی کے باعث ملک میں صرف تھرڈ پارٹی موٹر انشورنس نہ ہونے کے برابر ہے۔ایک اور اہم مسئلہ نان لائف انشورنس پالیسیوں پر ایک فیصد فیڈرل انشورنس فیس کا اطلاق ہے، جو 1989 میں انشورنس کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی تھی۔

تاہم، اس فیس کے تحت جمع کیے گئے فنڈز کو ان کے مطلوبہ مقصد کے لیے مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا ۔کمپٹیشن کمشین نے اپنی رپورٹ میں سفارشات پیش کی ہیں جن میں انشورنس سیکٹر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کمپٹیشن کمیشن نے ریاستی ملکیتی کمپنیوں کو حاصل ترجیحی سلوک کو فوری ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کو حاصل خودمختار گارنٹی کو ختم کرنے اور SRO 771(1)/2007 میں ترامیم کرتے ہوئے ری انشورنس مارکیٹ کو نجی کمپنیوں کے لیے کھولنے کی تجویز دی ہے۔

کمیشن نے انشورنس آرڈیننس 2000 میں ترمیم کے ذریعے پبلک پراپرٹی انشورنس کے شعبے میں مقابلہ قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کو حاصل خصوصی رعایت کو ختم کیا جائے تاکہ مارکیٹ میں موجود تمام کمپنیوں کو مقابلے کا یکساں ماحول میسر ہو۔ رپورٹ میں مزید سفارش کی گئی ہے کہ انشورنس رولز 2017 کے رول 18 میں ترمیم کرکے غیرملکی ری انشورنس پروکیورمنٹ پر پابندیوں کو ختم کیا جائے۔

جبکہ بینکاشورنس میں صارفین کے تحفظ کے لئے بینکوں کی جانب سے سیلز کے شفاف طریقوں کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بنکوں کے ذریعے بنکا شورنس کی فروخت کے لئے قواعد وضوابط عائد کرنا چاہیے جن سے صارفین کو گمراہ کن سیلنگ نہ کی جا سکے۔ کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ تنازعات کے بہتر حل کے لیے وفاقی انشورنس محتسب اور وفاقی محتسب کے درمیان بہتر تعاون کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔کمپٹیشن کمیشن عوام تک انشورنس کی رسائی کو بہتر بنانے کے لیے انشورنس پر ٹیکس کو معقول بنانے اور انشورنس کمپنیوں کے انتظامی اخراجات کو کم کرنے اور فیڈرل انشورنس فیس کو ختم کرنے کی سفارش کرتا ہے۔انشورنس کی تفصیلی رپورٹ کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔