سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں جسٹس جمال مندوخیل

جمعرات 17 اپریل 2025 20:46

سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں جسٹس جمال ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اپریل2025ء)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا ہے کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مجھ سے جو سوالات ہوئے تحریری معروضات کی شکل میں سامنے رکھے ہیں،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے۔

انھوںنے یہ دلائل جمعرات کے روزدیے ہیں۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ 23 اکتوبر 2023 کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور شہدا فورم بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر 38 انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

خواجہ حارث نے استدلال کیا کہ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کیلئے آفیسر باقائدہ حلف لیتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے،خواجہ حارث نے کہا کہ محرم علی آوے لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے۔

انہوں نے مزید استدلال کیا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا،یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فوجی عدالتیں عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جمعہ کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کریں گے، 28 تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28 تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہی خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ مزید درکار ہونگے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں،جسٹس جمال مندوخیل پوچھا کہا کہ میں ابھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں، اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو دو سے تین دن کا وقت درکار ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا میں دس منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث ا?ج بھی جواب الجواب دلائل مکمل نہ کر سکے، عدالت نے سماعت آج جمعہ تک کیلئے ملتوی کردی، عدالت نے خواجہ حارث کو ہر صورت دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔جسٹس امین الدین نے کہاکہ اٹارنی جنرل کو ہم 28اپریل کو سنیں گے،جمعہ کی سماعت کے بعد کیس کی سماعت 28تاریخ تک ملتوی کریں گے،28 تاریخ تک بنچ دستیاب نہیں ہوگا، 28تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں۔