قصور ڈانس پارٹی : عدالت کیسوں میں 25 اپریل کو پولیس سے دوبارہ سوشل میڈیا پالیسی طلب

جمعہ 18 اپریل 2025 23:49

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اپریل2025ء) لاہور ہائیکورٹ نے قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی ملزمان کی ویڈیو اور پتنگ بازی کرنے پر گنجا کر کے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر توہین عدالت کیسوں میں 25 اپریل کو پولیس سے دوبارہ سوشل میڈیا پالیسی طلب کر لی۔ قصور ڈانس پارٹی کا سرغنہ ڈی پی او قصور کا پرسنل سٹاف افسر نکلا۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے تھانوں میں ملزمان کے انٹریوز پر پابندی لگاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ میڈیا پر ملزمان کو ایکسپوز کرنا اور ان کے انٹریو نشر کرنا خلاف قانون ہے، آج کے بعد اگر کسی تھانیدار نے اس طرح کا انٹرویو میڈیا کو کرایا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہو گا، اگر کسی تھانے میں کسی کو گنجا کیا گیا، ایکسپوز کیا گیا یا ملزمان کی تذلیل کی گئی تو پولیس آفیسر کے پورٹ فولیو میں لکھا جائے گا اس نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے، میں اس ایشو پر پر کوئی اکڈیمک فیصلہ جاری نہیں کرنا چاہتا بلکہ ایک عملی فیصلہ جاری کرنا چاہتا ہوں۔

(جاری ہے)

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگرپولیس کو اپنی مثبت امیجنگ کرنی ہے پھر بھی کسی کو گنجا کرنا اور خواتین کی ویڈیو بنانا درست نہیں، اگر کوئی شخص دو سال بعد عدالت سے بری ہو جائے تو اس کے میڈیا ٹرائل کا کیا بنے گا ہمارے ملک میں تو ہرجانے کا کوئی قانون ہے ہی نہیں، پولیس سوشل میڈیا پالیسی کو آپ خود دیکھے، ایک موثر سوشل میڈیا پالیسی لائیں جس سے آپ کا کیس اور بنیادی انسانی حقوق متاثر نہ ہوں۔

ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے موقف اپنایا کہ تین پولیس اہلکار انکوائری میں قصوروار پائے گئے ہیں، کانسٹیبل ندیم وڈیو بنانے اور اسے وائرل کرنے کا ذمہ دار ہے۔ سینئر صحافی محمد اشفاق نے عدالت کے استفسار پر موقف اپنایا کہ مین اسٹریم میڈیا زیرحراست ملزمان کے انٹرویو نہیں کرتا ہے، پولیس خود انٹرویو کرواتی ہے، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے موقف اپنایا کہ قصور واقعے میںنایس ایچ او اور دو کانسٹیبل قصوروار پائے گئے۔

عدالت نے کہا کہ لوگوں کی ٹنڈیں کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی یہ قانون کے منافی ہے،اس طرح کی ویڈیو جاری ہونے سے ملزم اور مدعی دونوں کا کیس خراب ہوتا ہے، قانون کے مطابق انڈر کسٹدی ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ایڈووکیٹ جنرل امجد پرویز نے کہا کہ کچھ بیرون ممالک میں جیوری کو ٹی وی دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ پنجاب پولیس کی سوشل میڈیا پالیسی کو سپروائز کریں اور پولیس کو گائیڈ لائنز دیں۔

ایڈیشنل آئی جی میڈیا کو انٹرویو دینے کے حوالے سے گائیڈ لائنز جاری کریں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کوئی خاتون ہیں وہ کیمرہ اٹھا کے پولیس اسٹیشن چلی جاتی ہے، انسان فیملی کے ساتھ بیٹھ کر وہ کونٹینٹ نہیں دیکھ سکتا، شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے،اس طرح کا رویہ اورانٹرویوًز پراسیکیوشن کے کیس کو خراب کرتا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے موقف اپنایا کہ آج کل آفیشلز زیادہ لائکس لینے کے لئے اور منافع کمانے کے لئے بھی پیجز وغیرہ بنالیتے ہیں۔

وکیل پیمرا نے موقف اپنایا کہ ہم نے بڑے میڈیا چینلوں کے خلاف ایکشن لئے۔ عدالت نے ایس ایچ او سے پوچھاکہ تمھاری ہمت کیسے ہوئے لوگوں کے چہروں پر لائیٹیں بنا کر ویڈیو بنا رہے تھی جس پر ایس ایچ او نے کہا کہ یہ صرف ریکارڈ کے لئے بنائی گئی تھی۔ عدالت نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کونسا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ پولیس ریکارڈ کے لئے ایسی وڈیو بنائیں آپ میں اتنی جرات کیسے آئی عدالت کے استفسار پر وکیل ایس ایچ او نے بتایا کہ قصور ڈانس پارٹی ڈی پی او کے پی ایس او کے کہنے پر ارینج ہوئی تھی، یہ بات سچ ہے کہ ڈی پی او کے پی ایس او نے ان کو میسج کیا تھا کہ کچھ لوگ برتھ ڈے پارٹی منانے آ رہے ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے موقف اپنایا کہ ڈی پی او قصور کے پی ایس او اور دو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔