اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اپریل 2025ء) کینیڈا کے سرکاری نشریاتی ادارے سی بی سی اور دیگر نیوز چینلز نے بتایا کہ کینیڈا کی اگلی حکومت لبرلز بنائیں گے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا انہیں پارلیمنٹ میں اکثریت بھی حاصل ہو جائے گی۔
پیر کے روز پولنگ ختم ہونے کے بعد پارلیمنٹ کی 343 سیٹوں پر کنزرویٹوز کے مقابلے میں لبرلز کی جیت کے زیادہ امکانات تھے۔
لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا واضح اکثریت کے لیے لبرل پارٹی کو ایک سو بہتر سیٹیں مل جائیں گی یا حکومت سازی کے لیے اسے چھوٹی جماعتوں میں سے کسی ایک کی مدد پر انحصار کرنا ہو گا۔کینیڈا میں قبل از وقت قومی انتخابات کا اعلان
کنزرویٹو رہنما پیئر پوئیلیور کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہ ہو سکا، لیکن ان کی پارٹی ایک مضبوط اپوزیشن بننے کی راہ پر گامزن ہے۔
(جاری ہے)
کارنی، جنہوں نے پہلے کبھی بھی کوئی منتخب عہدہ نہیں سنبھالا تھا اور صرف گزشتہ ماہ ہی جسٹن ٹروڈو کی جگہ وزیر اعظم بنے تھے، اس سے قبل کینیڈا اور برطانیہ دونوں ممالک کے مرکزی بینکوں کے گورنر رہ چکے ہیں۔
کینیڈا: مارک کارنی جسٹن ٹروڈو کی جگہ نئے وزیر اعظم ہوں گے
ٹرمپ کی تجارتی جنگ اور کینیڈا کے امریکہ میں انضمامکی دھمکیوں نے کینیڈا کے عوام کو ناراض کر دیا تھا اور امریکہ کے ساتھ معاملات کو انتخابی مہم کا ایک اہم موضوع بھی بنا دیا تھا۔
ساٹھ سالہ کارنی ایک سابق انویسٹمنٹ بینکر ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ مخالف پیغام کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا، جس میں امریکہ پر انحصار کم کرنے کے لیے کینیڈا کے بیرون ملک تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ انہوں نے امریکہ کو ایک ایسا ملک قرار دیا تھا، '' جس پر ہم اب مزید اعتماد نہیں کر سکتے۔‘‘
کارنی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا، ''ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں توڑنا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ ہمارا مالک بن جائے۔
وہ ہمارے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمارا پانی چاہتے ہیں، وہ ہماری زمین چاہتے ہیں، وہ ہمارا ملک چاہتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ٹرمپ کے بیانات کا اثر
وزیر اعظم ٹروڈو کے مستعفی ہونے سے پہلے صدر ٹرمپ نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ''گورنر‘‘ کہا تھا۔ انہوں نے کینیڈا کو 51 ویں امریکی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کے بارے میں بیانات نے کینیڈین انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا۔
ٹرمپ نے پیر کے روز پولنگ کے دن بھی اپنا یہی بیان دہرایا۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا ٹروتھ پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، ''دیکھیے، یہ سرزمین کتنی خوبصورت ہو گی۔ بغیر کسی سرحد کے آزادانہ رسائی ہو گی۔
‘‘کینیڈا کے وزیر اعظم کارنی نے بارہا اس خیال کو مسترد کیا ہے۔
انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ''یہ کینیڈا ہے اور ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ یہاں کیا ہونا ہے۔‘‘
کنزرویٹو رہنما پیئر پوئیلیور نے بھی کارنی کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے امریکی صدر کو کینیڈا کے انتخابات سے ''باہر رہنے‘‘ کو کہا تھا۔
پوئیلیور نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''کینیڈا ہمیشہ قابل فخر، خود مختار اور آزاد رہے گا اور امریکہ کی 51 ویں ریاست کبھی نہیں ہو گا۔‘‘
پوئیلیور نے انتخابی شکست تسلیم کر لی
لبرل پارٹی کے سیاسی غلبے کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد اپوزیشن لیڈر پیئر پوئیلیور نے اپنی انتخابی شکست تسلیم کر لی ہے۔
لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا کہ کنزرویٹوز نے اپنی نشستوں کی تعداد میں 20 سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔نیو ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی)، جو چار سال سے حکمران اتحاد کا حصہ تھی، کی حمایت میں کمی دیکھی گئی۔ وہ 24 نشستوں سے متوقع آٹھ تک پہنچ گئی ہے۔ این ڈی پی کے رہنما جگمیت سنگھ نے کہا کہ عبوری رہنما کا نام آنے کے بعد وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
سنگھ اپنی سیٹ بچانے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کارنی کو ان کی جیت پر مبارکباد دی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محصولات عائد کیے جانے اور کینیڈا کو ایک امریکی ریاست بنانے کے بارے میں ان کے بیان کے بعد این ڈی پی کے بہت سے حامی لبرلز کی طرف منتقل ہو گئے تھے۔
ادارت: مقبول ملک