اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مئی 2025ء) فیڈرل آفس فار پروٹیکشن آف دی کانسٹی ٹیوشن (بی ایف وی) نامی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اب اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ 2013 میں قائم ہونے والی تارکین وطن مخالف جماعت جرمنی کے جمہوری نظام کے لیے خطرہ بننے والی کوششوں کی پیروی کر رہی ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی مقبولیت سی ڈی یو کے برابر
جرمنی کے حالیہ انتخابات کے نتائج: تارکین وطن برادری کی تشویش میں اضافہ
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس جماعت کو یہ حیثیت دینے کے بعد حکام کے لیے پارٹی کی نگرانی کے لیے خفیہ طریقوں کا استعمال آسان ہو جائے گا، جیسے مثال کے طور پر خفیہ مخبروں کو بھرتی اور پارٹی کے مواصلاتی رابطوں پر نظر رکھنا۔
مزید یہ کہ انتہا پسند تنظیم قرار دیے جانے کے ساتھ ساتھ سول سروس میں ملازمتوں پر پابندیاں اس تنظیم کی طرف سے لوگوں کو اپنا رکن بننے کی طرف راغب کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتی ہیں۔
(جاری ہے)
بی ایف وی نے ایک بیان میں کہا، ''لوگوں کے بارے میں نسلی اور آباؤ اجداد کی بنیاد پر تصور، پارٹی کے اندر غالب ہے جو آزاد جمہوری نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔
‘‘بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اس کا مقصد آبادی کے مخصوص گروہوں کو معاشرے میں مساوی شرکت سے خارج کرنا، ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا ہے جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور اس طرح انہیں قانونی طور پر ماتحت حیثیت تفویض کرنا ہے۔‘‘
اے ایف ڈی مسلم اکثریتی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے جرمن شہریوں کو نسلی طور پر جرمن عوام کے مساوی ارکان نہیں سمجھتی۔
بی ایف وی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ طریقہ کار افراد اور گروہوں کو 'بدنام اور رسوا‘ کرنے کی وجہ بنتا ہے، جس سے ''ان گروہوں کے بارے میں غیر منطقی خوف اور دشمنی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔
روئٹرز کے مطابق جرمنی کی تیزی سے مقبول ہوتی ہوئی جماعت اے ایف ڈی نے اس پیشرفت پر تبصرہ کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
یہ فیصلہ قدامت پسند رہنما فریڈرش میرس کے بطور نئے جرمن چانسلر حلف اٹھانے سے چند روز قبل سامنے آیا ہے، جبکہ اے ایف ڈی سے نمٹنے کے بارے میں گرما گرم بحث کا سلسلہ جاری ہے۔
خیال رہے کہ جرمنی کی اس انتہائی دائیں بازو کی پارٹی نے فروری میں ہونے والے جرمن پارلیمانی انتخابات میں ریکارڈ تعداد میں نشستیں حاصل کی تھیں، جو اصولی طور پر اسے متعدد اہم پارلیمانی کمیٹیوں کی صدارت کا حق دیتی ہے، مگر اس کے لیے پھر بھی اسے دیگر جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے اے ایف ڈی اور اس کے بیانیے کی حمایت میں مزید اضافہ ہونے کا خطرہ ہے کہ اسے تسلیم شدہ جماعتوں کا ایک ’کارٹیل‘ نظر انداز کر رہا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں اس پارٹی نے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے حوالے سے کئی جائزوں میں برتری حاصل کی ہے۔
اے ایف ڈی کے کچھ دھڑوں، جیسے اس کے یوتھ ونگ کو پہلے ہی انتہا پسند قرار دیا جا چکا ہے، جبکہ بحیثیت مجموعی اس پارٹی کی 2021 میں ایک مشتبہ انتہا پسند جماعت کے طور پر درجہ بندی کی گئی تھی۔
ادارت: شکور رحیم