فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے خلاف درخواستیں خارج، سزائیں درست قرار

پشاور ہائیکورٹ نے عمر قید، 20 سال اور 16 سال قید کی تینوں سزاؤں کو درست قرار دیا، ملزمان نے اقبالِ جرم کیا تھا

Sajid Ali ساجد علی بدھ 14 مئی 2025 16:16

فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے خلاف درخواستیں خارج، سزائیں درست قرار
پشاور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 14 مئی 2025ء ) پشاور ہائیکورٹ نے ملٹری کورٹ کی سزائیں درست قرار دیتے ہوئے سزاؤں کے خلاف درخواستیں خارج کر دیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا ملٹری کورٹ نے ملزمان کو سزائیں قانون کے مطابق دی ہیں، ملزمان کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم کیا، جس پر ملٹری کورٹ نے ایک ملزم کو عمر قید، ایک کو 20 سال اور ایک کو 16 سال قید کی سزا دی، ملٹری کورٹ نے تمام تقاضے پورے کیے ملزمان کو اپیل کا حق اور مرضی کا وکیل بھی دیا گیا۔

بتایا گیا ہے کہ اس سے پہلے 21 مارچ 2025ء کو پشاور ہائیکورٹ نے ملٹری کورٹ سے سزاؤں کے خلاف 29 درخواستیں خارج کرتے ہوئے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر مختصر فیصلہ سنایا تھا، سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ اور عدالتی معاون پیش ہوئے تھے، ایڈیشل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے عدالت کو بتایا کہ ملٹری کورٹ سزائیں خصوصی قانون کے تحت دی گئیں، سزاؤں میں 382 بی کا فائدہ ملزمان کو نہیں دیا جاتا، گرفتار ملزمان دہشت گرد ہیں، کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ سپیشل قوانین کے تحت سزاؤں میں ملزمان کو 382 بی کا فائدہ نہیں مل سکتا، سزائیں اسی وقت شمار ہوں گی جس وقت ان ملزمان کی سزاؤں پر دستخط ہو، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے سزائیں خصوصی قانون کے دائرہ میں آتی ہیں، ملٹری کورٹ قوانین میں ہائیکورٹ صرف دیکھتی ہے سزا متعلقہ سیکشن کے تحت ہیں یا نہیں۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ 7 مئی 2025ء کو سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ٹرائل کو درست قرار دیا تھا، سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے اپیلوں پر سماعت کی تھی، اپیلوں کے حق میں جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی مظہر جسٹس شاہد بلال، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس حسن رضوی نے فیصلہ دیا جب کہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلے سے اختلاف کیا، اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے آرمی ایکٹ کی 2 ڈی ون اور ٹو، شق 59 (4) کو بحال کرتے ہوئے وزارت دفاع سمیت دیگر اپیلوں کو منظور کرلیا۔