غزہ: بحران کے دوران خواتین و لڑکیاں باوقار ماہواری سے محروم

یو این پیر 9 جون 2025 18:30

غزہ: بحران کے دوران خواتین و لڑکیاں باوقار ماہواری سے محروم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 جون 2025ء) نقل مکانی، حد سے زیادہ گنجان پناہ گاہوں میں رہن سہن کے بدترین حالات اور صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات سے محرومی کے باعث ماہواری غزہ کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئی ہے۔

دنیا میں 1.8 ارب افراد ہر ماہ اس فطری حیاتیاتی عمل سے گزرتے ہیں لیکن بحران زدہ علاقوں میں یہ محض جسمانی دقت سے کہیں بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔

غزہ میں تقریباً 700,000 خواتین اور لڑکیاں ماہواری کی عمر میں ہیں۔ ان میں ہزاروں کو برستے بموں تلے اور ایسی پناہ گاہوں میں پہلی مرتبہ یہ تجربہ ہو رہا ہے جہاں نہ تو صحت و صفائی کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی انہیں خاطرخواہ نجی اخفا میسر ہوتا ہے۔

جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے خبردار کیا ہے کہ صحت و صفائی کے لیے درکار اشیا، صاف پانی اور صابن کی غیرموجودگی میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے باوقار طور سے ماہواری کو سنبھالنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

انسانی حقوق کا مسئلہ

رواں سال مارچ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مکمل محاصرے اور انسانی امداد کی فراہمی روکے جانے سے سینیٹری پیڈ سمیت صحت و صفائی کے سامان کی شدید قلت ہو گئی ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی حکام نے عارضی طور پر محاصرہ اٹھایا اور اس طرح اقوام متحدہ کے اداروں کے لیے آٹے اور ادویات سمیت محدود مقدار میں امداد لانا ہی ممکن ہوا۔

مئی کے آخر تک انسانی امداد امریکہ اور اسرائیل کے قائم کردہ نظام کے تحت تقسیم کی جا رہی تھی جس میں اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کا کوئی کردار نہیں۔ لیکن یہ مدد غزہ کے 21 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

علاقے میں پانی اور نکاسی آب کا تقریباً 90 فیصد نظام تباہ ہو گیا ہے یا اسے نقصان پہنچا ہے جبکہ پانی کھینچنے کی مشینری چلانے کے لیے ایندھن دستیاب نہیں رہا۔

© UNFPA/Media Clinic
غزہ میں ماہانہ ایک کروڑ سینیٹری پیڈ درکار ہیں لیکن فی الوقت اس کی ایک چوتھائی سے بھی کم تعداد دستیاب ہیں۔

تکلیف، تنہائی اور شرمندگی

ایک گنجان پناہ گاہ میں رہنے والی نوعمر لڑکی نے 'یو این ایف پی اے' کو بتایا کہ جب انہیں ماہواری آئی تو ان کے پاس ایک ہی پیڈ تھا جسے انہوں نے ایک ٹوائلٹ پیپر میں لپیٹ کر استعمال کیا تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ عرصہ کارآمد رہے۔ تاہم، پانی کی شدید قلت کے باعث ان کے لیے اسے دھونا ممکن نہیں تھا۔ ماہواری کے باعث انہیں شدید جسمانی تکلیف کا سامان تھا اور وہ دن بھر ایک ہی جگہ بیٹھی روتی رہیں۔

غزہ میں 90 فیصد گھرانوں کو پانی کی شدید قلت درپیش ہے جبکہ صاف پانی، صابن اور خواتین کے لیے ایسے غسل خانے بھی دستیاب نہیں جہاں ان کے لیے پردے کا مناسب انتظام ہو۔ ایسے حالات میں ماہواری ان کے لیے تکلیف، تنہائی اور شرمندگی لاتی ہے۔ عائشہ٭ نامی ایک بے گھر لڑکی نے بتایا کہ بعض اوقات انہیں خوراک سے کہیں زیادہ پیڈ اور صابن کی ضرورت ہوتی ہے۔

'کاش میں لڑکی نہ ہوتی'

غزہ میں ماہانہ ایک کروڑ سینیٹری پیڈ درکار ہیں لیکن فی الوقت اس کی ایک چوتھائی سے بھی کم تعداد دستیاب ہیں۔ ایسے حالات میں بہت سی خواتین اور لڑکیاں ایام ماہواری میں پرانے کپڑے، فوم، اور پھٹے پرانے چیتھڑے استعمال کرنے پر مجبور ہیں جبکہ بیشتر حالات میں وہ انہیں دھو بھی نہیں سکتیں۔

جبالیہ میں چار بچوں کے ایک باپ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی واحد قمیض پھاڑ کر اس کے ٹکڑے اپنی بیٹیوں کو دیے تاکہ وہ انہیں پیڈ کی جگہ استعمال کر سکیں۔

پیڈ کی غیرموجودگی میں یہ متبادل طریقے ناصرف تکلیف دہ ہوتے ہیں بلکہ ان سے ماہواری کو باوقار طور سے سنبھالنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ ان سے انفیکشن اور تولیدی صحت کے طویل مدتی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں جبکہ غزہ میں طبی نظام تباہی کے دھانے پر ہونےکی وجہ سے ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کو علاج معالجہ بھی میسر نہیں ہے۔

ایک لڑکی نے بتایا کہ ایسے حالات کا نفسیاتی بوجھ بھی شدید ہوتا ہے۔

جب بھی انہیں ماہواری آتی ہے تو وہ سوچتی ہیں کہ کاش وہ لڑکی نہ ہوتیں۔

© UNICEF
رواں سال مارچ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مکمل محاصرے اور انسانی امداد کی فراہمی روکے جانے سے سینیٹری پیڈ سمیت صحت و صفائی کے سامان کی شدید قلت ہو گئی ہے۔

وقار سے محرومی

غزہ کی ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ انہیں ماہواری، حمل اور زچگی کے مسائل کا شکار خواتین کو ہولناک حالات میں علاج مہیا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہواری کو پریشانی اور تکلیف کے بجائے ایک فطری جسمانی تجربہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ غزہ کی خواتین اور لڑکیاں مضبوطی سے ان مسائل کا سامنا کر رہی ہیں لیکن ان کی آنکھوں میں تکلیف اور وقار سے محرومی کا احساس بھی جھلکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالات میں خواتین اور لڑکیاں ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ نقل مکانی اور تحفظ سے محرومی کے نتیجے میں ان کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ایسے حالات میں ان پر خوراک اور پانی کی فراہمی جیسی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

خان یونس میں رہنے والی میسا٭ نامی خاتون نے بتایا کہ زندہ رہنے کے لیے خوراک ضروری ہے لیکن پیڈ، صابن اور محفوظ بیت الخلا خواتین اور لڑکیوں کو وقار سے جینے میں مدد دیتے ہیں۔

جب کبھی انہیں ایام ماہواری میں استعمال کے لیے صحت و صفائی کا سامان ملتا ہے تو وہ یوں سمجھتی ہیں جیسے بالآخر کسی نے ان کی حالت پر توجہ دے ہی دی ہے۔

'یو این ایف پی اے' کے اقدامات

اکتوبر 2023 سے اب تک 'یو این ایف پی اے' نے غزہ میں 300,000 سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو دو ماہ کی ضروریات کے لیے ڈسپوزیبل ماہواری پیڈ اور پہلی مرتبہ ماں بننے والی 12,000 سے زیادہ خواتین کو بعد از زچگی تولیدی صحت و صفائی کے لیے درکار سامان مہیا کیا ہے۔

تاہم، تین ماہ تک امداد کی فراہمی مکمل طور پر بند رہنے کے باعث یہ سامان تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

سرحدی راستے بند رہنے کے باعث خواتین اور لڑکیوں کو صحت و صفائی کا سامان فراہم نہیں کیا جا سکا۔ اطلاعات کے مطابق، حالیہ دنوں اسرائیل اور امریکہ کی مدد سے کام کرنے والی 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' نے محدود مقدر میں آٹا، ادویات اور غذائیت کا سامان ہی لوگوں میں تقسیم کیا ہے جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو ایام ماہواری میں صحت و صفائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مدد کی بھی اشد ضرورت ہے۔

٭ تحفظ کے پیش نظر نام تبدیل کیے گئے ہیں۔