کیا ہم جنگلاتی آگ کے ساتھ جینا سیکھ سکتے ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 22 جون 2025 16:20

کیا ہم جنگلاتی آگ کے ساتھ جینا سیکھ سکتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2025ء) ماحولیاتی تبدیلیوں کی بنا پر بڑھتی ہوئی خشک سالی اور موسم گرما میں ہونے والی بارشوں میں کمی کے رجحان کے باعث ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ یورپ میں 2100ء تک جنگلاتی آتش زدگی کے خطرات دو گنا سے بھی زیادہ ہو جائیں گے۔ تو کیا اب ہمیں جنگلاتی آگ کے ساتھ جینا سیکھ جانا چاہیے؟

سن 2024ء کے موسم خزاں میں صرف ایک ہفتے میں تباہ کن جنگلاتی آگ نے پرتگال میں ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ رقبے کو تباہ کر دیا۔

یہ علاقہ تقریباﹰ ہانگ کانگ کے رقبے کے برابر بنتا ہے۔ اس آگ کے باعث اٹھنے والے دھوئیں کے بادل خلا سے بھی نظر آ رہے تھے۔

جنگلات میں آگ پھیلانے والے پرندے "فائر ہاکس"

یہ واقعہ گزشتہ برس یورپی جنگلات میں لگنے والی آگ کے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک تھا، جس میں کم از کم سات افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر جنگلاتی آتش زدگی کی شدت میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا، تو آئندہ ایسا اکثر ہوتے رہنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔

یورپی یونین میں جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات کی سالانہ تعداد

یورپی اکیڈمیوں کی سائنسی مشاورتی کونسل (EASAC) کے ماحولیات کے ڈائریکٹر تھامس ایلمکوئسٹ کہتے ہیں، ''یورپ کے بہت سے حصے کئی برسوں سے خشک سالی میں مسلسل بےحد اضافے کا سامنا کر رہے ہیں، اس وجہ سے تباہ کن جنگلاتی آگ کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ کچھ یورپی علاقوں میں تو شاید ایسے خوفناک واقعات کا سامنا تقریباﹰ ہر دو سال بعد کرنا پڑے۔

‘‘

جدید شہروں میں آگ تیزی سے کیوں پھیلتی ہے اور سدباب کیا ہے؟

حال ہی میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں سائنسدانوں نے بتایا کہ یورپی یونین میں ہر سال کسی نہ کسی جنگل میں لگنے والی تباہ کن آگ کے مجموعی طور پر تقریباﹰ 60 ہزار واقعات پیش آتے ہیں، جن سے تقریباﹰ دو بلین یورو (2.2 بلین ڈالر) کا اقتصادی نقصان ہوتا ہے۔

ماہرین نے اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ جنگلاتی آتش زدگی کے ان واقعات کے نتیجے میں ہر سال یورپی ملک لکسمبرگ کے رقبے کے تقریباﹰ دو گنا کے برابر رقبہ جل کر تباہ ہو جاتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں، اراضی کا طرز استعمال اور شہری علاقوں کا پھیلاؤ

یورپ دنیا کا سب سے تیز رفتاری سے گرم ہوتا جا رہا براعظم ہے، جہاں پچھلے 30 برسوں میں درجہ حرارت میں اضافہ عالمی اوسط سے دگنی رفتار سے ہوا ہے۔

تھامس ایلمکوئسٹ ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات کے زیادہ ہو چکے خطرات کے باہمی تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خشک سالی میں مسلسل اضافے اور گرمیوں میں کم ہوتی جا رہی بارشوں کے سبب یورپ میں 2100ء تک جنگلاتی آگ کے خطرات دو گنا ہو جانے کا خدشہ ہے۔

ترکی میں 131 مقامات پر جنگلاتی آگ، رہائشیوں کی منتقلی

اس تحقیقی رپورٹ سے یہ پتہ بھی چلا کہ شمالی امریکہ اور ایشیا کے مقابلے میں یورپ میں ایسے شہری علاقوں کے تعداد دو گنا بنتی ہے، جن کے جنگلاتی آگ کی زد میں آ جانے کا خطرہ ہے۔

اس ریسرچ رپورٹ کے شریک مصنف اور ماہر ماحولیات پیئر ایبش کے مطابق ان خطرات کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ انسان رہتے کس طرح ہیں۔

ایبش کہتے ہیں، ''شہری علاقے اتنے پھیلے یا اس طرح نئے آباد کیے گئے کہ وہ دیودار کے جنگلات کے اندر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس دوران یہ نہ سوچا گیا کہ اگر ان جنگلات میں کوئی بڑی آگ لگی، تو کیا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ بہت پرخطر طرز عمل ہے۔

‘‘

پیئر ایبش کہتے ہیں کہ اس بڑے ماحولیاتی خطرے کی ایک مثال جرمنی سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جرمنی کے شمال مشرقی حصے میں دیودار کے کئی جنگلات ہیں۔

مشرقی جرمن صوبے برانڈن برگ میں ایک قصبے کا نام بورک والڈے ہے۔ وہاں سن 2000 سے عام باشندے رہائش کے لیے جنگل کے بتدریج قریب یا اندر تک جاتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ ماضی قریب میں وسیع تر جنگلاتی آتش زدگی کے باعث ایک قریبی قصبے سے وہاں کے رہائشی باشندوں کو ایک سے زائد مرتبہ ہنگامی طور پر نکالنا پڑ چکا ہے۔

مستقبل میں جنگلاتی آگ کے واقعات زیادہ تباہ کن

سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے یورپ میں دو سال تک جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات کی مانیٹرنگ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس براعظم میں جنگلوں میں لگنے والی آگ کے واقعات کی مجموعی تعداد اور اس وجہ سے تباہ ہو جانے والے جنگلاتی رقبے دونوں میں کمی ہوئی ہے۔ ماہرین کی رائے میں یہ حقیقت ثابت کرتی ہے، ''یہ کمی اس لیے ہوئی کہ ہمارے پاس اس آگ سے نمٹنے کی زیادہ صلاحیت ہے۔

‘‘

یورپ میں جنگلاتی آگ کے ان واقعات سے اسپین، پرتگال، اٹلی اور یونان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ تھامس ایلمکوئسٹ کے مطابق جرمنی میں سب سے بڑا خطرہ ملک کے شمال مشرق میں وقع دیودار کے جنگلات کو ہے۔

جرمنی کی فراؤن ہوفر سوسائٹی کی کلاؤڈیا بیرشٹولڈ کہتی ہیں کہ بحیرہ روم کے کنارے واقع یورپی ممالک دیگر یورپی ریاستوں کے مقابلے میں جنگلاتی آتش زدگی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔

دنیا بھر میں جنگلاتی آگ کے باعث ہلاکتیں: 2023ء اس صدی کا بدترین سال

بیرشٹولڈ ای اے ایس اے سی جیسے اداروں کی اس طرح کی نئی ریسرچ کو یورپ کی اس بارے میں نئی حکمت عملی کی تیاری کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں کہ اس براعظم میں جنگلوں میں لگنے والی آگ کی روک تھام کیسے کی جائے۔

کلاؤڈیا بیرشٹولڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جرمنی یا نیدرلینڈز میں مثال کے طور پر کسی چھوٹی جنگلاتی آگ کا مقابلہ کسی ایسے نظام کے ساتھ کیا جائے گا، جو نسبتاﹰ بہت اچھی طرح تیار نہ ہو۔

‘‘

اس ریسرچ اسٹڈی کے شریک مصنف پیئر ایبش کے مطابق رہائشی آبادیوں کے جنگلاتی علاقوں تک پھیلتے جانے کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ یہ نہیں سوچا جاتا کہ جب کوئی وسیع تر جنگلاتی آگ لگی، تو کیا ہو گا۔ وہ بھی ایسے جنگلوں میں جہاں آگ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔

ماحولیاتی نظاموں کی بحالی اور تعلیم کی اہمیت

یورپی اکیڈمیوں کی سائنسی مشاورتی کونسل کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر لینڈ اسکیپ پلاننگ کرنے والے، جنگلاتی امور کے ماہرین اور کسان اپنی کوششیں یکجا کر لیں، تو جنگلاتی آتش زدگی جیسے مسائل کو کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔

یہ ماہرین اس بارے میں زیادہ آگہی اور عوامی سطح پر بحث کے بھی حامی ہیں کہ عام لوگوں پر واضح کیا جا سکے کہ اب جنگلوں میں لگنے والی آگ کے واقعات کی نوعیت پہلے جیسی نہیں رہی۔

ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی یونین کے فطرت کی بحالی کے قانون جیسے ضابطوں کو پوری طرح اور دیرپا انداز میں نافذ کیا جائے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی پائیدار طریقے سے دیکھ بھال بھی بہت ضروری ہے۔

کیلیفورنیا میں جنگلاتی آگ: تباہ کن قدرتی آفات میں سے ایک

تھامس ایلمکوئسٹ کے بقول، ''جنگلاتی آگ کے سبھی واقعات برے نہیں ہوتے۔ کم شدت والی جنگلاتی آگ ایک قدرتی عمل کا حصہ بھی ہو سکتی ہے، جس سے جنگلوں کی نئی نشو و نما کو تحریک ملتی ہے۔‘‘

اس کے علاوہ ایک اور حل جنگلات کے ڈیجیٹل نقشوں کی تیاری بھی ہے، تاکہ جنگلوں کی بہتر مانیٹرنگ کی جا سکے۔