Live Updates

پنجاب حکومت کے اخراجات میں 10 کھرب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف

فراڈ، غلط ادائیگیوں، مالی بدانتظامی، غلط خریداری اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشاندہی کردی گئی

Sajid Ali ساجد علی اتوار 22 جون 2025 18:19

پنجاب حکومت کے اخراجات میں 10 کھرب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 جون2025ء ) پنجاب حکومت کے اخراجات میں 10 کھرب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف سامنے آگیا۔ جنگ اخبار کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ سال 2024/25ء کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کے اخراجاتی کھاتوں میں 10 کھرب روپے سے زائد کی سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے، جن میں فراڈ، رقم کا غلط استعمال، زائد ادائیگیاں، مالی بدانتظامی، غلط خریداری، اور کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی وصولیوں کا کمرشل بینکوں میں غیر مجاز طور پر رکھنا شامل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آڈٹ کی اہم دریافتوں میں 14 کیسز شامل ہیں جن میں فراڈ اور رقم کا غلط استعمال شامل ہے جن کی مالیت 3.1 ارب روپے بنتی ہے، 50 کیسز زائد ادائیگیوں، ریکوریز اور غیر مجاز ادائیگیوں کے ہیں جن کی مالیت 25.4 ارب روپے ہے، 21 کیسز مالی بدانتظامی کے ہیں جن کی مالیت 10.6 ارب روپے ہے، 45 کیسز غلط خریداری سے متعلق ہیں جن کی مالیت 43 ارب روپے ہے، 12 کیسز کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی وصولیوں کو کمرشل بینکوں میں غیر مجاز طور پر رکھنے اور خود مختار اداروں کی جانب سے عوامی رقوم کو بغیر منافع والے اکاؤنٹس میں رکھنے سے متعلق ہیں جن کی مجموعی مالیت 988 ارب روپے ہے۔

(جاری ہے)

معلوم ہوا ہے کہ ہیومن ریسورس سے متعلق بے ضابطگیوں کے 24 کیسز کی مالیت 8.2ارب روپے اور کارکردگی سے متعلق خامیوں کے 7کیسز کی مالیت 3.6ارب روپے ہے، آڈٹ کے نتیجے میں 25.4 ارب روپے کی ریکوری کی نشاندہی کی گئی، فروری 2024ء سے جنوری 2025ء کے دوران 2.2 ارب روپے کی رقم وصول کی گئی جسے آڈٹ نے تصدیق شدہ قرار دیا، رپورٹ میں مالی نظم و ضبط، خریداری اور معاہداتی معاملات، انسانی وسائل کی بھرتی، تنخواہوں کے نظام، اثاثوں کے انتظام اور بجٹ کی منصوبہ بندی و نفاذ جیسے شعبوں میں اندرونی کنٹرول کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ انتظامیہ کو فراڈ اور رقم کے غلط استعمال کے معاملات کی تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جا سکے، زائد ادائیگیوں اور غیر مجاز رقوم کی وصولی کی جائے اور ریکوری کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، اندرونی کنٹرول کے نظام کو بہتر کیا جائے اور جن سرکاری اہلکاروں نے بدعنوانی کی ہے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔

پنجاب پرکیورمنٹ رولز 2014ء کے مطابق تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کی جائے، صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی وصولیوں کو کمرشل بینکوں میں منتقل کرنے کی بجائے خزانے میں جمع کرایا جائے، تمام آسامیوں پر اشتہارات کے ذریعے میرٹ پر بھرتی کی جائے تاکہ ہیومن ریسورس پر کنٹرول مضبوط ہو، کلیدی کارکردگی کے اشاریوں (KPIs) اور نتائج کے حصول کی نگرانی کو سخت بنایا جائے تاکہ منصوبوں کے نتائج اور سروس کی فراہمی میں بہتری آ سکے۔

بتایا جارہا ہے کہ آڈٹ رپورٹ 2024/25ء مالی سال 2023/2024ء کا احاطہ کرتی ہے ، رپورٹ میں جن کیسز کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں 282 ارب روپے کی ای پے آن لائن وصولیوں کی عدم تصدیق، کمپنیوں اور ترقیاتی اداروں سے قرضہ جات اور ایڈوانس کی عدم وصولی کی صورت میں 352 ارب روپے، طویل عرصے سے واجب الادا رقوم کو وصولیوں کے طور پر ظاہر نہ کرنا جس کی مالیت 282 ارب روپے ہے، کمرشل بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے پنجاب کنسولیڈیٹڈ فنڈز کی غیر رپورٹ شدہ رقم 44 ارب روپے، سود کی عدم جمع آوری 2 ارب روپے، 541.563ایکڑ سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے کی عدم بازیابی، اور غیر مستحق کسانوں کو 480 ملین روپے کی سبسڈی دینا شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کے مجموعی اخراجات میں سے چار شعبے تقریباً 73 فیصد اخراجات کے ذمے دار تھے جن میں مواصلات اور تعمیرات 41 فیصد، صحت 15فیصد، تعلیم 6 فیصد، اور ہاؤسنگ، اربن ڈویلپمنٹ و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ 11فیصد شامل ہیں، اگرچہ زراعت کو پنجاب میں معیشت کا محرک تصور کیا جاتا ہے لیکن زراعت اور آبپاشی کے شعبوں پر اخراجات کا تناسب بالترتیب صرف 5 فیصد اور 4 فیصد رہا، باقی ماندہ 18 فیصد اخراجات ان محکموں میں تقسیم ہوئے جن میں ماحولیاتی تحفظ، ایکسائز و ٹیکسیشن، معدنیات، خواتین کی ترقی، جنگلات، جنگلی حیات اور فشریز شامل ہیں، تنخواہوں اور دیگر ملازمین کے فوائد مجموعی اخراجات کا 25 فیصد رہے، قرضوں کی ادائیگی 20 فیصد اور قرضوں پر سود کی ادائیگی 5فیصد رہی، مرمت اور دیکھ بھال پر صرف 2فیصد خرچ کیا گیا۔

رپورٹ میں پنجاب حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ریونیو اکٹھا کرنے کے نظام کو بہتر بنائے، بجٹ سازی اور اخراجات کے نظم و نسق میں اصلاحات لائے تاکہ بہتر قدر حاصل کی جا سکے، کاروباری عمل کی ازسرنو ترتیب، ای سروسز کے فروغ، زرعی پیداوار میں اضافہ، صنعتی پیداوار میں بہتری، واجب الادا رقوم کی وصولی، قواعد و ضوابط میں تبدیلی، اور وسائل کی منصوبہ بندی، تقسیم اور نگرانی کے لیے جدید تحقیق و ترقی کے آلات کا استعمال مفید ثابت ہوگا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ پر پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے مؤقف دیا کہ قانونی تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور ان پیراز کو متعلقہ محکموں کی سٹیٹ ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹیوں کے سامنے رکھا جائے گا، جو پیراز حل نہیں ہو سکیں گے انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے غور کے لیے پیش کیا جائے گا، اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات