اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2025ء) برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے اتوار کے روز موصولہ رپورٹوں کے مطابق کایا کالاس نے زور دے کر کہا کہ اگر ایران نے کوئی جوہری ہتھیار تیار کر لیے، تو بین الاقوامی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
کایا کالاس نے، جو یورپی کمیشن کی نائب صدر بھی ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شائع کردہ ایک پوسٹ میں کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزائے خارجہ کا ایک اجلاس کل پیر کے روز ہو گا، جس میں ایران پر امریکی فضائی حملوں کے بعد خطے کی تازہ ترین صورت حال پر مشاورت کی جائے گی۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ''ایران کو کسی بھی صورت یہ اجازت نہیں دی جانا چاہیے کہ وہ کوئی جوہری ہتھیار تیار کرے، کیونکہ یہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔
(جاری ہے)
میں ایران اسرائیل تنازعے کے تمام فریقوں سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے مذاکرات کی طرف لوٹیں تاکہ حالات کو مزید سنگین ہونے سے روکا جا سکے۔
‘‘ایران واپس مذاکرات کی طرف آئے، برطانوی وزیر اعظم کا مطالبہ
ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کو لازمی طور پر واپس مذاکرات کی طرف آنا چاہیے۔ اسٹارمر نے بھی ایرانی جوہری پروگرام کو ایک ''بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا۔
لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اتوار 22 جون کی صبح ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی جنگی طیاروں کے حملوں کے بعد وزیر اعظم اسٹارمر نے کہا کہ تہران کا جوہری پروگرام ایک ''بڑا خطرہ‘‘ ہے، جس کو امریکی فوجی کارروائی ''ختم‘‘ کر سکے گی۔
کیا اردن اور سعودی عرب اسرائیل کا دفاع کر رہے ہیں؟
امریکی حملوں سے قبل اسٹارمر حکومت کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے زور دے کر کہا تھا کہ واشنگٹن کی طرف سے ایران کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی خطے کو مزید عدم استحکام کا شکار کر دے گی، اس لیے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تنازعے کا کوئی سفارتی حل نکالا جانا چاہیے۔
لیکن ڈیوڈ لیمی کے ان بیانات کے بعد امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، جن کے بارے میں لندن سے موصولہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یہ بات تقریباﹰ یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان امریکی فضائی حملوں میں برطانیہ کسی بھی طرح شریک نہیں تھا۔
'خطے میں استحکام پہلی ترجیح‘
تین مقامات پر ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے بعد جس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان حملوں کو ایک بڑی عسکری کامیابی قرار دے رہے تھے، اسی وقت لندن میں وزیر اعظم اسٹارمر نے کہا، ''ایرانی جوہری پروگرام بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔‘‘
کیئر اسٹارمر نے مزید کہا، ''ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور امریکی کارروائی سے اس خطرے کا خاتمہ ہو جائے گا۔
‘‘ایران اسرائیل تنازعہ: یورپی ممالک کی سفارتی حل کی کوششیں
برطانوی سربراہ حکومت نے مزید کہا، ''مشرق وسطیٰ کی صورت حال مسلسل بہت نازک ہے اور خطے میں استحکام پہلی ترجیح ہے۔ ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ واپس مذاکرات کی میز کی طرف آئے اور اس بحران کے خاتمے کے لیے ایک سفارتی حل تک پہنچنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
‘‘ڈیگو گارشیا کا امریکی برطانوی فضائی اڈہ
امریکہ نے ایران کی جن تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، ان میں فردو کی زمین میں کافی زیادہ گہرائی میں قائم کردہ تنصیب گاہ بھی شامل ہے۔ ان حملوں سے قبلامریکہ نے اپنے بی باون اسٹیلتھ بمبار طیاروں کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ گولہ بارود کی منتقلی بھی شروع کر دی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ فردو کی زیر زمین جوہری تنصیب گاہ کو نشانہ بنانے کے لیے 13.5 میٹرک ٹن کے 'بنکر بسٹر‘ کہلانے والے جو بم استعمال کیے گئے، ان کو صرف ایک ہی جنگی ہوائی جہاز لے کر جا سکتا ہے، اور وہ بی باون طرز کا اسٹیلتھ بمبار طیارہ ہے۔
ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات
یہ امریکی طیارے ماضی میں بحر ہند میں اپنی پروازوں کے لیے ڈیگو گارشیا کے جزیرے پر قائم امریکی برطانوی فضائی اڈہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ ڈیگو گارشیا جزائر چاگوس میں سے ایک جزیرہ ہے اور تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ ایران میں نطنز، اصفہان اور فردو کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے بظاہر ڈیگو گارشیا کی امریکی برطانوی ایئر بیس کا استعمال نہیں کیا گیا۔
ادارت: شکور رحیم