Live Updates

1857ء کے واقعات: جنگ آزادی یا غدر

DW ڈی ڈبلیو اتوار 22 جون 2025 15:00

1857ء کے واقعات: جنگ آزادی یا غدر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2025ء) تاریخ میں واقعات کو فاتح اور مفتوح اپنے اپنے نظریات کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ اس صورت میں مؤرخ کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ دستاویزات کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ مفتوح کا نقطہ نظر غالب آ جاتا ہے۔ فاتح اور مفتوح کے نقطہ ہائے نظر کو دونوں جانب سے مؤرخین پیش کرتے رہتے ہیں۔

1857ء کی ہندوستانی مزاحمت کا، جو برطانوی حکومت کے خلاف ہوئی تھی، مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کو نوآبادیاتی نظام سے آزاد کرایا جائے۔ برطانوی نقطہ نظر سے یہ 'غدر‘ یا Mutiny تھی، جو حکمرانوں کے مطابق ان کی 'قانونی حکومت‘ کے خلاف تھی حالانکہ 'قانونی حکومت‘ تو مغل بادشاہ کی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے فوجی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر رکھا تھا۔

(جاری ہے)

اس خونریزی پر پہلا ردعمل انگلستان کے وزیر اعظم بینجمن ڈزرائیلی کا تھا، جس نے اسے نیشنل ریوولٹ یا قومی بغاوت کا نام دیا تھا۔

کارل مارکس نے بھی اخبار ٹریبیون میں اسے 'قومی بغاوت‘ ہی لکھا تھا۔ وینائک دامودر ساورکر وہ پہلا شخص تھا، جس نے اس واقعے کے بارے میں لکھتے ہوئے اسے اپنی کتاب ’ہندوستان کی آزادی کی جنگ‘ سے موسوم کیا تھا۔

یہ کتاب 1901ء میں شائع ہوئی تھی۔ ساورکر نے یہ کتاب قومی نقطہ نظر سے لکھی تھی۔ آزادی کی اس جنگ میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک تھے۔ اس جنگ میں جن رہنماؤں نے مزاحمت کی، ساورکر نے انہیں ہیروز کا درجہ دیا۔ اس کتاب کے لکھنے پر ساورکر پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے بطور سزا کالا پانی میں قید کر دیا گیا تھا۔

ہندوستان میں برطانوی حکومت کے دور میں 'غدر‘ کے موضوع پر لکھنا ممنوع تھا۔

صرف ان کتابوں کی اشاعت کی اجازت تھی، جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کو جائز قرار دیا گیا ہو اور 'باغیوں‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ مثلاً سر سید احمد خان نے اپنی کتاب 'تاریخ سرکشی بجنور‘ میں، جہاں وہ اس وقت کمپنی کے ملازم تھے، باغیوں کو کمینے اور مردود لکھا ہے۔ غدر کہلانے والی جنگ پر ہندوستانی نقطہ نظر سے لکھنے پر پابندی کی وجہ سے 1857ء کے بارے میں برطانوی نظریہ ہی سچائی کا باعث بنا رہا۔

یہاں تک کہ جب مشہور مؤرخ جادوناتھ سرکار نے 1857ء کے واقعے پر تحقیق کا منصوبہ بنایا، تو اسے فوراً ہی ترک کر دیا۔ اس لیے کہ یوں اسے برطانوی حکومت کی ناراضگی کا خطرہ تھا اور پھر اس مؤرخ نے اپنی تحقیق کو مغلوں کے زوال تک ہی مرکوز رکھا۔

1947ء میں آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے 1957ء میں اس موضوع پر تحقیقی کتابیں شائع کرائیں۔ مشہور مؤرخ ایس این سین نے اپنی کتاب کا ٹائٹل صرف 1857 ہی رکھا اور یہ واضح نہ کیا کہ آیا یہ واقعہ غدر تھا یا جنگ آزادی۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے، جو اس وقت بھارتی وزیر تعلیم تھے، اس کتاب پر اپنا مقدمہ لکھا تھا۔ ایک بنگالی مؤرخ نے 1857 کو Sepoy Mutiny یعنی سپاہیوں کی بغاوت لکھا ہے۔

1857 کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ پہلے نظریے میں یہ کہا گیا کہ 1857 کی مزاحمت میں ہندوستان کے وہ مقامی حکمران شامل تھے، جن کی ریاستیں کمپنی نے ضبط کر لی تھیں۔ جیسے جھانسی کی رانی، نانا صاحب اور حضرت محل۔

دوسرے نظریے میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس مزاحمت میں کسان، کاریگر اور عام لوگ بھی شامل تھے۔ ہفتہ روزہ اقتصادی اور سیاسی جریدے EPW کا ایک شمارہ 1857 کے بارے میں بھی تھا، جس میں دلت طبقے کا بھی ذکر ہے، جس نے مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔

سبالٹرن مؤرخوں نے اپنی تحقیق میں کسانوں کی بغاوت کا ذکر کیا ہے، جو 1857 کے ردعمل میں ہوئی تھی۔ بھارت میں تاریخی تحقیق کی بھارتی کونسل نے 1857 پر تحقیق کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا ہے، جو اس واقعے پر ہونے والی تحریروں کو شائع کر رہا ہے جو مدتوں سے گمنام تھیں۔

ان میں لوگوں کے روزنامچے، عوامی گیت، واقعات کا آنکھوں دیکھا حال، سبھی کچھ شامل ہے۔ پاکستان میں اب پنجاب اور سندھ بھی 1857 کی جنگ آزادی میں اپنے کردار پر تحقیق کر رہے ہیں۔ حیدر آباد اور کراچی میں جو بغاوتیں ہوئی تھیں، ان کا حال کنہیا لال نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ پنجاب میں احمد خان کھرل کے علاوہ عوامی گیتوں میں جو 1857 کا ذکر ہے، اسے بھی جمع کیا گیا ہے۔

1857 میں ہونے والے واقعات کا کچھ ذکر غالب کے خطوط میں بھی ملتا ہے۔ ظہیر دہلوی نے اپنی کتاب 'داستان غدر‘ میں ان مصائب کا ذکر کیا ہے جو دہلی کی آبادی کو اٹھانا پڑے تھے۔

آخر انگریزوں نے کیوں اس عوامی مزاحمت کو کچل ڈالا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی فوج میں اکثریت تو ہندوستانیوں کی تھی، مگر افسر انگریز تھے اور مخبر بھی ہندوستانی تھے جو اپنے افسروں کو باغیوں کی کمزوریوں سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔

دیہات میں جاگیردار اور زمیندار انگریزوں کے حامی رہے۔ دہلی میں بھی اشرافیہ کے وہ افراد تھے، جو انگریزوں سے خفیہ خط و کتابت کرتے تھے۔ لہٰذا جب کسی معاشرے میں ذاتی مفادات کے لیے ملکی و قومی مفاد کو قربان کر دیا جائے، تو ایسے معاشرے پر غیر ملکی اقتدار کو قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا موجودہ معاشرہ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے اور اس کی اشرافیہ بھی اپنے ذاتی فائدوں کے لیے قومی اور ملکی مفادات کو قربان کر دیتی ہے؟ تاریخ سے سبق تو سیکھا جا سکتا ہے مگر اس کو سیکھنے کے لیے سوچ اور فکر کی ضرورت ہوتی ہے اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر معاشرے کی بہبود کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات