شہر اقتدار مظفرآباد کے گلی، کوچوں، محلوں میں اور ہر ریڑھی،دکان پر پانی پہنچانے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں

اتوار 29 جون 2025 14:55

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جون2025ء) شدید گرمی و سردی کے علاوہ تمام تر موسمی تکالیف کو برداشت کرنے والے پانی فروش حکومتی عدم توجہی کا شکار ہو کر کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور، تاجر برادری سمیت ہر ریڑھی دکان پر پینے کا صاف پانی معمولی معاوضے پر مہیاء کرنے والے آج بھی ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

شہر اقتدار مظفرآباد کے گلی، کوچوں، محلوں میں اور ہر ریڑھی،دکان پر پانی پہنچانے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ گزشتہ روز میڈیا سروے کے دوران شہر بھر میں پانی فروخت کرنے والوں سے جب ان کا حال پوچھا گیا تو ایک معمر شخص بلک بلک کر رونے لگا۔قرب و جوار کی ریڑھیوں، دکانوں پر کنستروں میں پانی بھر کر فروخت کرنے والے ایک معمر شخص محمد مقصود جو کرولی کے رہائشی ہیں کا کہنا تھا کہ اس کے بچوں نے شادی کے بعد اسے اکیلا چھوڑ دیا گزشتہ 20 سال سے پانی فروخت کر کے زندگی کی ڈور کو سلامت رکھا ہوا ہے انہوں نے بتایا کہ رحمانیہ دوا خانے والوں نے صاف ستھرے کنستر ہمیں فراہم کیے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم 30 روپے اور 40 روپے کا ٹین پانی کا گھر گھر، دکان دکان اور ہر ریڑھی پر لے جا کر فروخت کرتے ہیں۔ صاف پینے کا پانی فروخت کرنے کے لیے رحمانیہ دوا خانے کی جانب سے فراہم کردہ کنستروں کو استعمال کرتے ہیں۔ جو ہم کندھوں کندھے پر اٹھا کر لے جاتے ہیں دور دراز چشموں سے پانی بھر کر فروخت کرتے ہیں۔صذف پینے کا پانی فروخت کرنے کرنے والے ایک اور مزدور مقصود کا کہنا تھا کہ وہ سبڑی سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اسی طرح دیگر پانی فروش مختلف نواحی علاقوں سے شہر میں آ کر پانی فروخت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشی مجبوریاں اور کام نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال سے ہم یہی کام کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے بال بچوں کا بھی پیٹ پالتے ہیں۔ اس موقع پر سول سوسائٹی کے اکابرین کا کہنا تھا کہ حکومت آزاد کشمیر ایسے لوگوں کے لیے قانون سازی کرے جو عمر کی بالائی حد عبور کر چکے ہیں مگر روزی روٹی کے لیے یہ مشقت بھرا کام سر انجام دے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے نہ تو ریاست میں علاج معالجہ کی سہولت ہے نہ ہی ان کو کسی بھی قسم کی زندگی کی بنیادی ضروریات میسر ہیں۔ ایسے لوگوں کی کفالت کس کی ذمہ داری ہی ریاست کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کی کفالت کا ذمہ اٹھاتے ہوئے ان کی دیکھ بھال اور زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لیے خصوصی کردار ادا کرے۔