اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جولائی 2025ء) دانشوروں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ دانشور ہیں جنہیں ریاست کا نقیب کہا جا سکتا ہے یہ حکمران طبقے میں ہیروز کو پیدا کرتے ہیں پھر ان کو مقدس بنا کر ان کے حوالے سے ریاستی امور کو جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ اپنے ہیروز کی خاطر افسانے تراشتے ہیں اور فرضی کہانیوں کو اس سے منصوب کرتے ہیں۔
یہ تاریخ کو مسخ کرتے ہیں۔ سیاسی نظریات کو نیا رُخ دیتے ہیں۔ نصاب کی کتابوں کو بے مصرف علم سے بھر دیتے ہیں ترانوں اور گیتوں کے ذریعے بے مقصد قوم پرستی کے جذبات کو پیدا کرتے ہیں۔ریاستی پروپیگنڈے کا آلہ کار بن کر جھوٹی اور فرضی خبریں بنا کر عوام کو اصلیت سے بے خبر رکھتے ہیں۔ ریاست بھی ان دانشوروں کی سرپرستی کرتی ہے۔
(جاری ہے)
ان کو خطابات دیے جاتے ہیں وظیفے مقرر ہوتے ہیں۔
ریاست کی جانب سے سماجی اور ادبی کانفرسوں میں مدعو کرکے ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں ریاستی ادارے شائع کر کے انہیں سرکاری کتب خانوں کی زینت بناتے ہیں۔ ان کی کتابوں کے اجراء کے موقع پر اعلیٰ حکام شریک ہو کر ان کی علمیت کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ لہٰذا ریاست کو موقع پرست دانشوروں کی ضرورت ہوتی ہے اور دانشور حکمرانوں کے منظور نظر بن کر معاشرے میں ممتاز مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسرے وہ دانشور ہیں جو ریاست کی سرپرستی کے بجائے عوام کے شوق، تفریح اور وقت گزاری کے لیے کتابیں لکھتے ہیں۔ اگر لوگوں میں تاریخ سے دلچسپی ہو تو یہ اس دلچسپی کو پورا کرنے کے لیے تاریخی ناول لکھتے ہیں جن کا تعلق اصل تاریخی واقعات سے تو نہیں ہوتا ہے مگر ان میں جنگوں کی خونریزی اور ہیرو اور ہیروئن کی محبت کے مناظر کو دلچسپ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس قسم کے تاریخی ناول عبدالحلیم شرر، صادق حسین اور نسیم حجازی کے ہیں۔ یہ ناول قارئین میں ایمان کا جوش و خروش پیدا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ ملک کے دشمنوں سے جنگ کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ ناولوں کایہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔دوسرا عام مقبول موضوع جاسوسی ناولوں میں ہوتا ہے۔ ان میں سسپنس بھی ہوتا ہے۔ ریاستی اور مافیائی گروہوں کے درمیان تنازعات کو بھی بتایا جاتا ہے۔
تیسرے ناولوں کی قسم رومانوی ہوتی ہے۔ یہ ناول محبت سے محروم نوجوانوں کے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث ہو جاتے ہیں۔ اور وہ بھی اپنے خیالات میں اور اپنی زندگی میں رومانوں کو دیکھتے ہیں اور ایک تیسری قسم عورتوں کے لکھے ہوئے ناول ہوتے ہیں۔ جن میں محبت اور عشق میں ناکامی، معاشرے میں عورت کا سماجی درجہ اور سماجی رسم و رواج اور رسومات کا ذکر ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ ناول اور افسانے لکھنے والے عوام میں بے حد مقبول ہو کر اچانک غائب ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسری نسل لے لیتی ہے۔ جو بدلتے ہوئے ماحول میں لوگوں کے جذبات اور عادات کا خیال کرکے اپنے موضوعات کو منتخب کرتی ہے۔پھر وہ دانش ور ہوتے ہیں جن کا نہ ریاست سے تعلق ہوتا ہے اور نہ وہ عوامی مقبولیت کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ آزادی کے ساتھ سنجیدہ موضوعات پر جن میں تاریخ، ادب اور سیاسیات شامل ہیں ان پر تحقیقات کر کے کوئی کتاب لکھتے ہیں۔
ان کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناشر ان کی کتابوں کو شائع کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ ان کے قارئین محدود ہوتے ہیں۔ یہ نہ حکمران طبقوں اور عوام میں مقبول ہوتے ہیں بلکہ ان کے خلاف جارحانہ رویہ ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں کو معاشرے کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اکثر ان کی کتابوں کو ممنوعہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر وہ شائع ہو جائیں تو حکومتی ادارے ان کو کتابوں کی دکانوں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ان پر ملک دشمن ہونے کا الزام دے کر مقدمات بھی درج کیے جاتے ہیں۔معاشرے میں عام لوگ ان کے بارے میں ریاستی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر مخالفانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی روزی کے دروازے بند کرنے کے لیے ان کی ملازمتوں کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا ہے۔ یہ آزاد دانش ور اپنے نظریے کی خاطر تکالیف اور مصائب کو برداشت کرتے ہیں۔
تنہائی کا شکار ہو کر اپنا وقت تصنیف و تالیف میں گزارتے ہیں۔ ان کی لکھی کتابیں بعض کتب خانوں میں الماریوں میں بند گرد آلود ہو جاتی ہیں لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب حالات بدلتے ہیں اور معاشرے کو فرسودہ روایات سے نجات پانے کی کوشش ہوتی ہے تو اس صورت میں ان گمشدہ دانشوروں کو دریافت کر کے ان کے خیالات و افکار سے نئی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ جب حالات بدلتے ہیں تو ریاستی اور عوامی مقبولیت کے دانش ور گم ہو جاتے ہیں۔یہاں چند ایسے دانشوروں کا ذکر کرنا ضروری ہے جن کے افکار کو ان کی زندگی میں سمجھا نہیں گیا مثلاً آج ابن خلدون کا مقدمہ بہت مشہور ہے۔ ان کا یہ مقدمہ ان کی تاریخی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال کیسے ہوتا ہے۔ تہذیبوں کی تشکیل و تعمیر میں کون سے عوامل حصہ لیتے ہیں۔
اس مقدمے کو موجودہ زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے سرکاری عہدے داروں نے تلاش کیا تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ سلطنت عثمانیہ کو کیوں کر زوال ہو رہا ہے۔یہاں سے یہ مقدمہ یورپ پہنچا۔ اس کا یورپی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ابن خلدون کو فلسفہ تاریخ اور سوشیالوجی کے نظریات کا سب سے بڑا دانشور قرار دیا گیا۔ آج ابن خلدون پر تحقیق کرکے دانشوروں نے اس کے نظریات پر بحث کی ہے۔
مصر کے طلحہ حسین نے ابن خلدون پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا۔ اردو میں بھی مقدمے کا ترجمہ ہو چکا ہے مگر اس کو کم ہی لوگوں نے پڑھا اور سمجھا ہو گا۔اطالوی تاریخ دان جامباتیستا ویکو (Giambattista Vico) Napples یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ ان کی کتاب "The New Science" میں تاریخ کے فلسفے کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی اپنی زندگی میں ان کے فلسفے کی کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔
ان کو ایک طرح سے دوبارہ دریافت کرنے کا کام فرانس کے مورخ "Michelet" کا ہے، جنہوں نے ان کے فلسفہ تاریخ کو گمشدگی سے نکال کر یورپ میں روشناس کرایا۔تیسرے اہم دانش ور جرمنی کے فلسفی آرتھر شوپن ہاؤر ہیں، جو ہیگل کے سخت مخالف تھے۔ شوپن ہاؤر کی نظر میں ہیگل ریاست کے نمائندے تھے۔ برلن یونیورسٹی میں جب ہیگل کے لیکچرز ہوتے تھے تو کمرے طالب علموں سے بھر جاتے تھے۔
شوپن ہائر کا کمرہ ان کے سامنے تھا مگر ان کے پاس کوئی طالب علم نہیں آتا تھا۔ لوگ شوپن ہائر اور ان کی کتابوں کو بھول گئے۔ فریڈرِش نطشے نے کتابوں کی ایک دوکان پر ان کی ایک کتاب دیکھی۔ اس کو پڑھنے کے بعد وہ شوپن ہائر کے فلسفے سے متاثر ہوئے اور آہستہ آہستہ علمی دنیا شوپن ہائر کے فلسفے سے واقف ہوئی۔لہٰذا دانش مندوں کی دنیا میں وہ دانشور بھی ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں اور وہ دانشور بھی ہیں جنہیں گمشدگی سے نکال کر ان کو نئی زندگی دی جاتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔