چین کی سب سے بڑے ڈیم کی تعمیر اور بھارت کی پریشانی

DW ڈی ڈبلیو منگل 22 جولائی 2025 14:20

چین کی سب سے بڑے ڈیم کی تعمیر اور بھارت کی پریشانی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) چین کے وزیر اعظم لی کیانگ نے اعلان کیا ہے کہ تبت کے سطح مرتفع کے مشرقی کنارے پر دریائے یارلونگ سانگپو پر دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے۔

تاہم اس بڑے ڈیم کے منصوبے سے بھارت کو خاص طور تشویش لاحق ہے، جبکہ بنگلہ دیش اور بعض غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اس پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

چین ڈیم کیوں بنانا چاہتا ہے؟

دریائے یارلونگ سانگپو 2,900 کلومیٹر طویل ہے اور ہمالیہ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے گہری زمین پر واقع وادی کہلاتی ہے، جہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ ایک حصے پر تو دریا 50 کلومیٹر کے فاصلے تک 2,000 میٹر کی بلندی سے گرتا ہے۔

چین کے ڈیم تعمیر کرنے کے اس منصوبے پر 170 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی اور بیجنگ کا کہنا ہے کہ تبت کے علاقے میں قابل تجدید توانائی کی توسیع، کاربن کے اخراج میں کمی اور اقتصادی اہداف کے لیے اسے تعمیر کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ اس سے "پیدا ہونے والی بجلی بنیادی طور پر استعمال کے لیے دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے گی، جبکہ تبت میں بجلی کی مقامی ضروریات کو بھی پورا کیا جائے گا۔"

یہ ڈیم مبینہ طور پر پانچ جھرنے والے ہائیڈرو پاور اسٹیشنوں پر مشتمل ہو گا، جو ہر سال 300 بلین کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

بجلی کی یہ مقدار اتنی ہے، جتنی برطانیہ نے گزشتہ برس پورے سال میں استعمال کی۔

چینی منصوبے پر بھارت اور بنگلہ دیش کی تشویش

دریائے یارلونگ سانگپو جنوب کی طرف بہتا ہے اور بھارت اور بنگلہ دیش میں پہنچ کر یہ دریائے برہم پترا کہلاتا ہے۔ یہ خطے کے لاکھوں لوگوں کے لیے پانی کا ذریعہ ہے اور زراعت کے لیے بھی لوگ دریا پر انحصار کرتے ہیں۔

دونوں ممالک نے نیچے کی طرف رہنے والے لاکھوں لوگوں پر ڈیم کے اثرات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بعض غیر سرکاری تنظیموں نے بھی ماحولیاتی طور پر حساس سطح مرتفع کو ناقابل تلافی نقصان کے خطرات سے بھی خبردار کیا ہے۔

جنوری میں بھارتی وزارت خارجہ نے چین کے ساتھ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ "اس کی نگرانی کرے گا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔

"

بھارت نے کہا کہ چین پر زور دیا گیا ہے کہ "اس بات کو یقینی بنائے کہ ترائی کے علاقوں میں برہم پترا کے پاس والی ریاستوں کے مفادات کو بالائی علاقوں میں سرگرمیوں سے نقصان نہ پہنچے۔"

ایک آسٹریلوی تھنک ٹینک لوری انسٹیٹیوٹ کی سن 2020 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ "ان دریاؤں پر کنٹرول سے چین کی بھارتی معیشت پر گرفت مضبوط ہو جائے گی۔

"

ڈیم 'واٹر بم' ثابت ہو سکتا ہے

اروناچل پردیش میں سرحد کے اس پار اس پروجیکٹ نے ممکنہ بہاو کے اثرات پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بھارت نے رد عمل کے طور پر چینی ڈیم کا مقابلہ کرنے کے لیے ذخیرہ کرنے کے ایک بڑے منصوبے کی تجویز پیش کی ہے، تاہم پیش رفت سست رہی ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں اروناچل پردیش کے وزیر اعلی پیما کھنڈو نے خبردار کیا تھا کہ یہ ڈیم بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے، جو "عسکری خطرے" کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور اسے "واٹر بم" کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

وزیر اعلی نے بھارتی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا، "فرض کریں کہ ڈیم بن جاتا ہے اور وہ اچانک پانی چھوڑ دیتے ہیں، تو اس سے ہماری پوری سیانگ پٹی تباہ ہو جائے گی۔ خاص طور پر، قدیم قبیلہ اور اس جیسے دیگر گروہ ۔۔۔ اپنی تمام جائیداد، زمین، اور خاص طور پر انسانی زندگی کو تباہ کن اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

برہم پترا کے پانی کا تقریباً 30 فیصد حصہ چین سے آتا ہے، جبکہ زیادہ تر پانی بھارت کے علاقوں میں ہونے والی بارشوں سے آتا ہے۔

اسی لیے چینی ڈیم کا فوری اثر سب سے زیادہ اروناچل پردیش پر پڑے گا۔

چین کا خدشات پر رد عمل کیا ہے؟

چینی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ اس منصوبے کی تعمیر سے کتنے لوگ بے گھر ہوں گے۔ دسمبر میں، چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس منصوبے سے بہاو پر کوئی "منفی اثر" نہیں پڑے گا۔ اس نے مزید کہا کہ بیجنگ دریا کے نچلے حصے میں موجود ممالک کے ساتھ رابطے کو بھی برقرار رکھے گا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرنے والے دریاؤں سے جغرافیائی سیاسی مسائل کھڑے ہوئے ہیں۔

یارلونگ سانگپو ڈیم 2030 کی دہائی کے اواخر تک کام کرنا شروع کر دے گا۔

ادارت: جاوید اختر